شاہِ خراسان، امام ضامن، غریب الغرباء، انیس النفوس حضرت امام رضا علیہ السلام سلسلہ امامت کےآٹھویں اور نسب معصومیت کے دسویں چراغ ہیں امام رضاؑ تقریباً 20 سال تک امامت کے عہدے پر فائز رہے،آپ کی امامت عباسی حکومت کے تین خلفاء ہارون الرشید 10 سال، محمد امین تقریبا 5 سال اور مأمون الرشید 5 سال کی حکومتوں پرمحیط تھی۔ امام محمد تقی علیہ السلام سے منقول ایک حدیث میں آیا ہے کہ آپ کے والد بزگوار کورضا کا لقب خدا کی طرف سے عطا ہوا اسی طرح آپ عالمِ آل محمد کے نام سے بھی مشہور تھے۔
شہادت:

غریب الغرباء حضرت امام رضا علیہ السلام ایران،خراسان کے طوس شہرمیں شہید ہوئے اورجیسا کہ خود حضرت نے پیش گوئی اوروصیت فرمائی تھی،اس کے مطابق حضرت کو سناباد(محلہ)کی ایک مشخص جگہ پردفن کیا گیا یہ مقام بعد میں مشہد الرضا علیہ السلام کے نام سے معروف ہوگیا۔
گویا مقدراسی طرح سے تھا کہ حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذریتِ طاہرہ اور پاک و پاکیزہ نسل سے اوراسی طرح 12 معصوم ومنصوص آئمہ علیہم السلام میں سے ایک امام عالی مقام علیہ السلام’’مدینۃ الرسول‘‘(ص) سے بہت دور ایک سرزمین (خراسان۔ طوس۔ سناباد)کے صدف میں گوہر تابناک بنے،اور اس غریب الوطنی میں مسموم ہوکر شہادت پائے اور پھر اس کی ملکوتی بارگاہ اور نورانی مرقد سےجہان بھر کی کروڑوں توحید پرست عاشقوں کے دلوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہوئے کوثرِ ولایت کی طرف کھینچے۔
سلام ہوں اُس ہستی پر جب اُس کے نور کا ہم خاکیوں کی نجات کیلیے ظہور ہوا،اور جب مظلومیت و غریب الوطنی کے عالم میں اپنے خاندان سے کوسوں دور مسموم ہو کر شہادت پائی،اور جب انتہائی عظمت،شکوہ اور جلالت کے ساتھ دوبارہ حکمِ خدا سے زمین کو منوّر کرے اور آفتاب عالم تاب بن کر اپنے شیعوں کی جانوں اور دلوں کو اپنے نورِ ولایت و رأفت سے گرمائے ،اس معصوم، مظلوم اور مسموم ہستی پر ہر چاہنے والے کی ہرسانس کی تعداد سے کئی گنا لاکھوں درود اور لاکھوں سلام۔
محمدبن عیسی یقطینی کابیان ہے کہ میں نے ان تحریری مسائل کو جوحضرت امام رضاعلیہ السلام سے پوچھے گئے تھے اورآپ نے ان کا جواب تحریر فرمایا تھا، اکھٹا کیا تو18 ہزار کی تعداد میں تھے.
واقعہ شہادت کے متعلق مورخین نے لکھتےہیں کہ حضرت امام رضاعلیہ السلام نے فرمایاتھا کہ ”فمایقتلنی واللہ غیرہ“ خداکی قسم مجھے مامون کےسواء کوئی اورقتل نہیں کرے گا اورمیں صبرکرنےپرمجبورہوں۔
علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ ہرثمہ بن اعین سے آپ نے اپنی وفات کی تفصیل بتلائی تھی اوریہ بھی بتایاتھا کہ انگوراورانارمیں مجھے زہردیاجائے گا۔ علامہ معاصرلکھتے ہیں کہ ایک روزمامون نے حضرت امام رضاعلیہ السلام کواپنے گلے سے لگایااورپاس بٹھاکران کی خدمت میں بہترین انگوروں کاایک طبق رکھا اوراس میں سے ایک خوشہ اٹھا کرآپ کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے کہا ابنِ رسول اللہ یہ انگورنہایت ہی عمدہ ہیں تناول فرمائیے آپ نے یہ کہتے ہوئے انکارفرمایا کہ جنت کے انگوراس سے بہترہیں اس نےشدید اصرارکیا اورآپ نے اس میں سے تین دانے کھالیےیہ انگورکے دانے زہرآلودتھے انگورکھانے کے بعد آپ اٹھ کھڑے ہوئے ،مامون نے پوچھاآپ کہاں جارہے ہیں آپ نے ارشاد فرمایا جہاں تُونے بھیجاہے وہاں جارہاہوں قیام گاہ پرپہنچنے کے بعد آپ تین دن تک تڑپتے رہے بالآخرشہادت فرماگئے۔
شہادت کے بعدحضرت امام محمد تقی علیہ السلام باعجازتشریف لائے اورنمازجنازہ پڑھائی اورآپ واپس چلےگئے بادشاہ نے بڑی کوشش کی کہ آپ سے ملے مگرنہ مل سکا اس کے بعدآپ کوبمقام طوس محلہ سناباد میں دفن کردیاگیا جوآج کل مشہد مقدس کے نام سے مشہورہےاوراطراف عالم کے عقیدت مندوں کے حوائج کامرکزہے حضرت امام موسيٰ بن جعفر الکاظم علیہ السلام طولانی زندانوں اور شدید ترین شکنجوں کے اثر سے سندی بن شاہک ملعون کے زندان میں شہید ہوئے اور ظالم و جابر خلیفہ ہارون کوشش کررہا تھا کہ اس معصوم امام علیہ السلام کی مظلومانہ و مسمومانہ شہادت کو طبیعی موت کا رنگ دے سکے، ظالم و ستمگر باپ کےراستے کا راہی مأمون خلیفہ بھی اپنے باپ کی روش پر چلتا ہے اورکوشش کرتا ہے کہ اتنے سنگین ظلم کو چھپانے میں کامیاب ہوسکے اور یہ ظاہر کرسکے کہ ولی عہد طبیعی موت مرے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ بعض چاپلوس تاریخ دان(طبری جیسے)انگور کھانے کو،بعض طبیعی موت کو اور بعض عباسیوں کی سازشوں اور بدخواہیوں کو غریب امام علیہ السلام کی شہادت کے اسباب رقم کرتے ہیں اور ایک گروہ جو اس غریب امام کا خالص ماننے والا گروہ’’شیعہ‘‘ہے اس کا فیصلہ اور قضاوت یہ ہے کہ براہ راست خود مأمون نے حضرت کو مسموم کر کے شہید کیا صحابی امام رضا ابا صلت ہروی سے بھی جب سوال کیا گیا کہ مأمون کس طرح سے امام علیہ السلام کو شہید کرنے پر تیار ہوگیاجبکہ ظاہری طور پرتو وہ حضرت کا احترام کرتا تھا اورحضرت کو اپنے بعد ولی عہد بنا رہا تھا؟
ابا صلت نے اس بات کی تائید کرتے ہوئے کہ حضرت امام رضا علیہ السلام خود خلیفہ کے ہاتھوں شہید ہوئے؛اظہار کیا:’’اگر خلیفہ، امام علیہ السلام کا اکرام و احترام کرتا تھا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ امام علیہ السلام کی برتری سے آگاہ تھا اوراس فضلیت کا اعتراف کرتا تھا اور اگرولای عہدی کا منصب حضرت کے سپرد کرنا چاہتا تھا تو اس عمل کے ذریعے یہ دکھانا چاہتا تھا کہ (نعوذ باللہ من ذٰلک) حضرت دنیا طلب ہیں اوراس کا مقصد یہ تھا کہ اس طرح لوگوں کی توجہات کا مرکز امام نہیں رہیں گے اور ان کی نظروں میں گر جائیں گے،اگرچہ ہرگز ایسا نہیں ہوا بلکہ علمی محافل کی تشکیل کے ساتھ امام علیہ السلام کا چہرہ مبارک اور علمی شخصیت کھل کر سب کے سامنے واضح ہو گئے۔ اور روز بروز خلیفہ کا مقام لوگوں کی نگاہوں میں گرتا جا رہا تھا اور اس مجموعی صورتحال کے پیش نظر دوست اور دشمن سب لوگ امام علیہ السلام کو خلافت کا حقدار جاننے لگے تھے۔
یہ حالات خلیفہ پر گران گذر رہے تھے، اُس کےدل میں حضرت کے بارے میں کنیہ وحسد میں اضافہ ہو گیا اوراُس نےسوچی سمجھی سازش کے تحت امام علیہ السلام کو مسموم کرکےشہید کر دیا’’۔
امام علیہ السلام کا مأمون ملعون کے ذریعے شہید ہونا ایک ایسی مظلومیت تھی جس کا اہل بیت علیہم السلام اور شیعہ تاریخ میں اضافہ ہوا ۔آزاد منش،حقیقت طلب اور حقیقت گو شعراء نے اس مظلومیت اور مصیبت کو اپنی مرثیہ نگاری اور حماسی ادبیات کا ہمیشہ یاد رہنے والا حصہ بنالیا۔
حیات و واقعات
183ھ میں حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے قیدخانہ ہارون رشید میں اپنی عمرکا ایک بہت بڑاحصہ گزارکر درجہ شہادت حاصل فرمایا، آپ کی وفات کے وقت امام رضاعلیہ السلام کی عمر تیس برس تھی والد بزرگوارکی شہادت کے بعد امامت کی ذمہ داریاں آپ کی طرف منتقل ہوگئیں یہ وہ وقت تھا جب کہ بغداد میں ہارون رشید تخت خلافت پر متمکن تھا اوربنی فاطمہ کے لیے حالات بہت ہی ناسازگارتھے۔
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے بعد دس برس تک ہارون رشید کا دوررہا یقیناً وہ امام رضاعلیہ السلام کے وجود کو بھی دنیا میں اسی طرح برداشت نہیں کرسکتا تھا جس طرح اس کے پہلے آپ کے والد ماجد کا رہنا اس نے گوارا نہیں کیا مگریا توامام موسی کاظم علیہ السلام کے ساتھ جو طویل مدت تک تشدداور ظلم ہوتارہا اورجس کے نتیجہ میں قیدخانہ ہی کے اندرآپ دنیا سے رخصت ہو گئےاس سے حکومت وقت کی عام بدنامی ہوگئی تھی اوریا واقعی ظالم کو بدسلوکیوں کااحساس اورضمیر کی طرف سے ملامت کی کیفیت تھی جس کی وجہ سے کھلم کھلا امام رضا علیہ السلام کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی تھی لیکن وقت سے پہلے اس نے امام رضاعلیہ السلام کو ستانے میں کوئی لمحہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔
حضرت کے عہدہ امامت کوسنبھالتے ہی ہارون رشید نےآپ کا گھرلٹوا دیا، زمانہ ہارون رشید میں حضرت امام علی رضاعلیہ السلام حج کے لیےمکہ معظمہ تشریف لے گئےاسی سال ہارون رشید بھی حج کے لیے آیا ہوا تھا خانہ کعبہ میں داخلہ کے بعد امام علی رضاعلیہ السلام ایک دروازہ سے اور ہارون رشید دوسرے دروازہ سے نکلے امام علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ دوسرے دروازہ سے نکلنے والا جو ہم سے دور جارہا ہے عنقریب طوس میں دونوں ایک جگہ ہوں گے ایک روایت میں ہے کہ یحی ابن خالد برمکی کوامام علیہ السلام نے مکہ میں دیکھا کہ وہ رومال سے گرد کی وجہ سے منہ بند کئے ہوئے جا رہا ہے آپ نے فرمایاکہ اسے پتہ بھی نہیں کہ اس کے ساتھ امسال کیا ہونے والا ہے یہ عنقریب تباہی کی منزل میں پہنچا دیا جائے گاچنانچہ ایساہی ہوا۔
فضائل:

آپ کے اخلاق وعادات اورشمائل وخصائل کا لکھنا اس لیے دشوارہے کہ وہ بے شمارہیں آپ کثرت سےخیرات کیا کرتے تھے اوراکثر رات کے تاریک پردہ میں اس استحباب کو ادا فرمایا کرتے تھے موسم گرما میں آپ کا فرش جس پرآپ بیٹھ کرفتوی دیتے یا مسائل بیان کیا کرتے بوریا ہوتا تھا اور سرما میں کمبل آپ کا یہی طرزاس وقت بھی رہا جب آپ ولی عہد حکومت تھے آپ کا لباس گھرمیں موٹا اور خشن ہوتا تھا اوررفع طعن کے لیے باہرآپ اچھا لباس پہنتے تھے ایک مرتبہ کسی نے آپ سے کہاکہ حضوراتنا عمدہ لباس کیوں استعمال فرماتے ہیں آپ نےاندر کا پیراہن دکھلا کرفرمایا اچھا لباس دنیا والوں کےلیےاورکمبل کا پیراہن خدا کے لیے ہے.
آپ کے خادم یاسر کا بیان ہے کہ ہم ایک دن میوہ کھا رہے تھے اور کھانےمیں ایسا کرتے تھے کہ ایک پھل سے کچھ کھاتے اورکچھ پھینک دیتے ہمارے اس عمل کو آپ نے دیکھ لیا اور فرمایا نعمت خدا کوضائع نہ کرو ٹھیک سے کھاؤ اورجو بچ جائےاسے کسی محتاج کودے دو،آپ فرمایا کرتے تھےکہ مزدورکی مزدوری پہلے طے کرنا چاہئے کیونکہ چُکائی ہوئی اجرت سے زیادہ جو کچھ دیا جائے گا پانے والا اس کو انعام سمجھے گا۔
آل محمد(ص) کے تمام افراد بلندترین علم کے درجے پرقراردئیے جاتےتھے جسے دوست اوردشمن کو ماننا پڑتا تھا یہ اوربات ہے کہ کسی کو علمی فیوض پھیلانے کا زمانے نے کم موقع دیا اور کسی کو زیادہ، چنانچہ ان حضرات میں سے امام جعفرصادق علیہ السلام کے بعد اگر کسی کو سب سے زیادہ موقع حاصل ہوا ہے تو وہ حضرت امام رضاعلیہ السلام ہیں، جب آپ امامت کے منصب پرنہیں پہنچے تھےاس وقت حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام اپنے تمام فرزندوں اورخاندان کے لوگوں کو نصیحت فرماتےتھے کہ تمہارے بھائی علی رضا عالم آل محمد علیھم السلام ہیں، اپنے دین مسائل کوان سے دریافت کر لیا کرو، اورجو کچھ اسے کہیں یاد رکھو، اور پھر حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی وفات کے بعد جب آپ مدینہ میں تھے اورروضہ رسول پرتشریف فرمارہے تھے توعلمائے اسلام مشکل مسائل میں آب کی طرف رجوع کرتے تھے۔
معجزات:
چہاردہ معصومین کے معجزات و کرامات کا ایک لامتناہی سلسلہ جب آٹھویں امام و دسویں معصوم تک پہنچتا ہے تو آپ کے اعجازات کا ہر کوئی معترف نظر آتا ہے اُس دور کی تو کیا ہی بات ہے، اہلِ بیت کی کرامات کے ظہور کا سلسلہ آج تک جاری ہے، ان ہی واقعات و کرامات میں سے ایک مشہور واقعہ ہے کہ؛
کچھ برس قبل مشہد میں حرم امام رضا علیہ السلام میں ایک عالم دین نمازِ فجرکے بعد ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ آج سے کچھ دن پہلے یہاں ایک فرانسیسی انجینئر اایراان میں تعمیرات و مقامات کے مشاہدے کیلئے آیا تھا وہ جب روضہ امام رضا کے اس دروازے سے داخل ہوا جہاں پر بیماروں کولا کر باندھا جاتا ہے،اس مقام سےامولا امام رضا علیہ السلام کےحرم کا گنبد صاف نظر آتا ہے ، کہنے لگا کہ یہ اتنا خوبصورت گنبد کس کا ہےتو ساتھ میں کھڑے ایک زائر نےجو ان کی زبان سمجھتا تھا، بتایا کہ یہ وہ ہیں جن کی اللہ کےہاں بہت عزت و آبرو ہے ،یہ سن کر وہ فرانسسی آگےبڑھا اوردیکھا کہ کسی کے ہاتھ میں ڈوری ہے،کسی کےگلےمیں،کسی کے پاوں میں ،۔۔ توکہنے لگا یہ سب کیا ہے ؟تو اس شخص نے جواب دیا کہ جس مریض کو ہرجگہ ہر ڈاکٹر سے جواب مل جائے تو اسے یہاں گروی کیا جاتا تو اسے شفاء مل جاتی ہے۔۔۔ یہ سننا تھا کہ ایک لمحہ ضایع کیئے بغیر انجینئر نے جالی شفاء سےلٹکی ہوئی ایک ڈوری کو اپنے گلے میں باندھ لیا۔۔ اس بات پر تعجب سے اس شکس نے انجینئر سے پوچھا کہ آپ کو کیا کوئی لا علاج بیماری ہے ؟ تو انجینئر نے جواب دیا کہ نہیں مجھے نہیں ہے،میرا ایک بیٹا ہےجوبیمارہوا تھا،اس کےبعد اسے فالج ہو گیا ، ہم نے اس کے علاج کے لئے دنیا کے بڑے سے بڑے ڈاکٹر کو دیکھایا ہے لیکن سب نے لا علاج کہہ دیا۔
انجینئر نے کہا کہ تم کہتے ہو کہ اس مزار والی شخصیت کو اللہ کے ہاں عزت و آبرو حاصل ہے تو ضروری تو نہیں کہ میرا بیٹا ہی آئے ، اس کی جگہ میں یہاں بیٹھ جاتا ہوں اورعلاج اس کا ہو جائے گا ۔ ۔۔جس پر اس شکص نے کہا کہ جناب یہاں کا طریقہ یہ ہے کہ بیمار کا لانا ضروری ہے، اانجینئر نے یہ سن کر اپنے الفاظ میں کوئی دعا کی اور پھر کہا اچھا میں کل اوں گااور واپس اپنے ہوٹل چلا گیا ۔ تاہم دل ہی دل میں خوش تھا ، اسےامید لگ گئی تھی اس نے سوچا کہ اپنی بیوی کو بھی بتادوں ، اس نے کال کی تو بیوی نے کہا کہ میں کافی دیر سے کوشش کر رہی ہوں لیکن جواب نہیں تھا مل رہا انجینئر نے بتایا کہ میں مشہد آیا ہوا ہوں اوریہاں وہ بندہ دفن ہےجو اللہ کے ہاں عزت وآبرو رکھتا ہے ،ان کے درسےلاعلاج لوگ شفا یاب ہو جاتے ہیں ، اب اس انجینئر کی بیوی بار بار بات کو کاٹنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن اس نے بات جاری رکھی ،اب اس کی بیوی نے کہا کہ میری بھی بات سنیں انجینئر نے کہا سناو ، وہ کہنے لگی کہ ابھی کچھ دیر پہلے گھرمیں ایک کرشمہ ہو گیا ہے ،دروازے پر دستک ہوئی تو میں نے دیکھا تو ایک مرد ہیں ، لیکن میں نہ پہچان سکی کہ کون ہیں تو وہ کہنے لگے کہ اے اہلِ خانہ ہمیں اندر آنے کی اجزت دیں ، ان کا رعب و جلال اتنا تھا کہ میں نے آنے دیا ،پھر وہ ہمارے بیٹے کے کمرے کی جانب بڑھنے لگے میں ،فوراَ پیچھے گئی تو دیکھا کہ انھوں نے ہمارے بیمار بیٹے کو دونوں بازوں سے پکڑ کر کھڑا دیا اور وہ بالکل ٹھیک ہو گیا،یہ دیکھ کرمجھ پر سکتہ طاری ہو گیا اور دیکھا کہ وہ جانے لگے ہیں ، تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے ہم پر اتنا بڑا احسان کیا ہے ، آپ کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں ؟تو انھوں نےاتنا ہی بتایا کہ میرا نام رضا ہے اور مشہد سے آیا ہوں اور یہ کہہ کر وہ چلے گئے۔ درود بر محمد و آلِ محمد

