شفقنا خصوصی : مشرق وسطی کے آن لائن اخبار مڈل ایسٹ آئی (MEE)کے مطابق متحدہ عرب امارات کے ولی عہد محمد بن زید المعروف MBZ، ادلب میں ترک فوج سے لڑائی دوبارہ شروع کرنے کیلئے شام پردباو ڈال رہے ہیں۔
فروری کے آخر میں ادلب خوفناک جنگ کا نشانہ بنا جسکے نتیجے میں ہزاروں شہریوں کی ہلاکت کے علاوہ خون جما دینے والی سردی میں 20لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوگئے۔
صدر ایردوان اورروسی صدر کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں جنگ بندی کا معاہدہ طئے پاگیا جس پر 5مارچ سےعمل ہورہا ہے۔
باخبر ذرائع کے مطابق محمد بن زید کی ہدایت پر قوی سلامتی کیلئے انکے مشیر تہنون بن زید نے اپنے شعبے کے اعلی افسر علی الشمسی کوایک خصوصی پیغام کے ساتھ دمشق بھیجا جس میں کہا گیا ہے کہ اگر بشارالاسد جنگ بندی معاہدہ توڑ دیں تو ادلب پر حملے کیلئے متحدہ عرب امارات شام کو 3ارب ڈالر کی مدد دیگا۔
امارات کے ولی عہد ادلب میں جنگ کیوں چاہتے ہیں؟صرف وہی نہیں بلکہ ایسی ہی خواہش اسرائیلی وزیراعظم ، یونان، مصر کے جنرل السیسی اور سعودی ولی عہد کی بھی ہے جسکا مقصد کرونا وائر س کے عذاب میں مبتلا ترکی کیلئے اس نازک مرحلے پر مشکلات پیدا کرنا ہے۔
ترک فوج لیبیا کی قومی حکومت کوتقویت دینے اور بحر روم میں استحکام کیلئے خلیفہ حفتر کے دہشت گرد وں کی گوشمالی کرررہی ہے۔اسرائیل بحر روُم میں ترکی سے خوفزدہ ہے جس نےسمندرکے مشرقی حصے پر بالا دستی قائم کرلی ہے اور لیبیا میں ایک مستحکم ترک دوست حکومتُ کے قیام سےبحرروم کے دوسرے کنارے پر بھی ترکُ بحریہ کا اثرورسوخ بڑھ سکتا ہے۔جنرل السیسی کی نظریں بحرروم میں لیبیا کے معدنی مفادات پر ہیں۔
یہ ممالک ترکی کو شام میں مصروف رکھنا چاہتے ہیں تاکہ السیسی لیبیا کی دولت ہتھیاسکیں اور علاقے سےترکی کے عملُ دخلُ کو کم کرکے سارے بحر روم کے وسائل پر اسرائیل کی گرفت مضبوط ہوجائے۔
تاہم روس ادلب میں لڑائی کی تجدید اور ترکُی سے کشیدگی نہیں چاہتا۔ روسی وزیر دفاع نے گزشتہ ہفتے بشار الاسد سے ملاقات میں انھیں متنبہ کیاہے کہ جنگ بندی کی بلاجواز خلاف ورزی کی صورت میں روس شام کی حمائت نہیں کریگا۔ بشار الاسد کومعلوم ہے کہ روس کی مدد کے بغیر شامی فوج ترکوں کا مقابلہ نہیں کرپائیگی۔ایران بھی ترکی سے کشیدگی نہیں چاہتا اسلئے خیال ہے کہ محمد بن زید کی جانب سے منہہُ میں پانی لانے والی پیشکش کے باوجود بشارالاسد ادلب میں مہمُ جوئی نہیں کرینگے۔ یہاں سے مایوس ہوکر اب لیبیاء میں خلیفہ حفتر کو آگے بڑھایا جائیگا۔
امن دشمن ذہنیت پر افسوس کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے۔
