ملک میں سیاسی تناؤ کے درمیان حکومت اور اپوزیشن کے مابین گلگت بلتستان کو ‘عارضی صوبے کا درجہ’ دینے پر تقریباً اتفاق رائے ہوگیا اور اس معاملے پر گلگت بلتستان اسمبلی کے انتخابات کے بعد مشاورت کرنے پر بھی رضامندی کا اظہار کیا گیا ہے۔ یہ معاملہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر منصوبہ بندی اسد عمر پر مشتمل حکومتی ٹیم کی اپوزیشن جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ ملاقات میں زیر بحث آیا۔
جبکہ آرمی چیف کی جانب سے دئیےگئے سیاسی قائدین کےعشائیےکا اصل مقصد بھی گلگت بلتستان کو صوبہ بنانےکے لیے آئینی تبدیلیوں کے لیے اپوزیشن کی مددحاصل کرنا تھا۔دوسری جانب قبل ازیں وزیر ریلوے شیخ رشید نے دعویٰ کیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنماؤں نے آرمی چیف کو حالیہ ملاقات میں یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ گلگت بلتستان کو ‘عارضی صوبائی حیثیت’ دینے کے اقدام کی حمایت کریں گے۔تاہم آرمی چیف نے گلگت بلتستان کی حیثیت میں تبدیلی کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے وقت کا تعین ملک کی سیاسی قیادت پر چھوڑ دیا ہے۔
تاریخی طور پر گلگت بلتستان ریاست جموں کشمیر کا حصہ تھا۔ لیکن سنہ 1948 میں مقامی لوگوں کی مدد سے یہ پاکستان کے زیر کنٹرول آ گیا۔ تقریبا 15 لاکھ آبادی کا یہ خطہ اپنے دیو مالائی حُسن، برف پوش پہاڑوں، خوبصورت وادیوں اورپھلوں سے لدے باغوں کی وجہ سے کسی جنت سے کم نہیں۔ لیکن حُسن کے ساتھ اس علاقے کی جعرافیائی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے۔اس کی سرحدیں چین، انڈیا، تاجکستان اور پاکستان سے ملتی ہیں، جن میں سے تین ملک ایٹمی طاقت ہیں۔
گلگت بلتستان، چین پاکستان اقتصادی راہداری کا دروازہ ہے۔ یہاں پاکستان کی جانب سے صوبائی نظام تو نافذ کیا گیا ہے جیسا کہ یہاں کا اپنا گورنر اور وزیرِ اعلیٰ ہے لیکن قانونی اعتبار سے اس علاقے کو پاکستان میں وہ آئینی حقوق حاصل نہیں جو ملک کے دیگر صوبوں کو حاصل ہیں۔
پہلے یہاں پر ’سٹیٹ سبجیکٹ رول‘ نام کا قانون نافد تھا جس کے تحت یہاں صرف مقامی لوگوں کو ہی سرکاری ملازمتیں کرنے، سیاسی عہدے رکھنے اور جائیدادیں خریدنے کا حق حاصل تھا۔ لیکن ستر کی دہائی میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں اسے ختم کر دیا گیا۔اس کے بعد یہاں مختلف قوانین کے تحت نظام چلایا جاتا رہا لیکن مقامی لوگوں کا ہمیشہ سے ہی مطالبہ رہا کہ پاکستان باقاعدہ طور پر گلگت بلتستان کے ساتھ الحاق کر کے اسے مستقل طور پر پاکستان میں ضم کر لے۔
جبکہ کشمیری اس مطالبے کی پرزور مخالفت کرتے رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ گلگت بلتستان متنازع علاقے کا حصہ ہے اور اسے اس وقت تک ایسا ہی رہنا چاہیے جب تک کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ نہیں ہو جاتا۔کشمیری سمجھتے ہیں کہ مستقبل میں کسی بھی استصواب رائے میں کشمیر کی آزادی کی آواز اسی صورت زیادہ موثر ہو گی جب اس میں گلگت بلتستان کے عوام کی حمایت بھی شامل ہو۔
اور ماضی میں پاکستان اسی لیے مقامی آبادی کے پُرزور مطالبے کے باوجود گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کو بدلنے سے کتراتا رہا ہے۔
’گلگت بلتستان کو پاکستان میں ضم کرنے کا فیصلہ ملک کی سلامتی مفادات کے پیش نظر کیا جا رہا ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ سی پیک کے راستے کو محفوظ کیا جائے۔ اور اس حوالے سے ضروری ہے کہ مقامی لوگوں کے تحفظات کا ازالہ ہو اوراس علاقے پر سے سیاسی غیر یقینی کی کیفیت کو دور کیا جائے۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’لیکن اس بات کا قویٰ امکان ہے کہ ضم کرتے ہوئے عبوری یا عارضی قسم کے الفاظ کو استعمال کیا جائے گا تاکہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کے موقف کو عالمی سطح پر کم سے کم نقصان پہنچے۔ کشمیری اس پیشرفت سے زیادہ خوش نہیں ہوں گے لیکن پاکستان کوشش کرے گا کہ انھیں اعتماد میں لے۔ اس معاملے پر حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش ہو گی۔‘
انڈیا نے اب تک اس اعلان پر کوئی باقاعدہ ردعمل نہیں دیا۔ لیکن وہ اس علاقے کو متنازع سمجھتا ہے اور اس پر اپنا حق جتاتا ہے۔ انڈیا نے ماضی میں گلگت بلتستان کی آئینی اور قانونی حثیت میں تبدیلی کی ہمیشہ ہی مخالفت کی ہے۔لیکن اس وقت پاکستان کے گلگت بلتستان کو باقاعدہ صوبہ بنانے کے اعلان کو انڈین میڈیا میں چین اور انڈیا کے لداخ میں حالیہ تنازع اور موجودہ صورتحال میں انڈیا پر دباؤ بڑھانے کے لیے پاکستان اور چین کی ملی بھگت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔تاہم اگربھارت کشمیرپرغاصبانہ قبضہ کرسکتاہےتوگلگتبلتستان توہےہی پاکستان کا حصہ۔ جنوبی ایشیا سے متعلق امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا نے لداخ اور کشمیر کو علیحدہ علیحدہ صوبہ بنا کر نیز آرٹیکل 370 کو منسوخ کر کے پاکستان کو بھی اس نہج پر لایا ہے کہ وہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے متعلق کوئی ایسا فیصلہ کرے۔ ان ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ دونوں اطراف کی حکومتوں نے یہ جان لیا ہے کہ جو حصہ جس کے پاس ہے اسی پہ ہی اکتفاء کرنا پڑے گا۔
