
پاکستان کی سیاست نے پچھلے ہفتے جو سیاسی کروٹ لی ہے اس کے نتیجہ میں مختلف سیاسی کردار اپنی ہیت اور جثے میں کھل کر سامنے آنے لگے ہیں۔دھمکی اور جوابی دھمکی کی رسہ کشی میں سیاست دان اور ادارے ایک دوسرے کو تولتے نظر آتے ہیں۔یہ عمل عوام کے لیے انتہائی تکلیف دہ سہی لیکن شائد اس سے ملک میں سیاسی بلوغت کے عمل میں تیزی آئے گی۔جے یو آئی کی پہچان ملکی سیاست میں مذہبی جماعت کی تھی لیکن آزادی مارچ اور پارٹی کے موجودہ لب و لہجہ سے دن بدن واضح ہوتا جاتا ہے کہ مولانا صاحب مذہبی رہنما سے زیادہ اسٹریٹ پاور ہولڈر ہیں۔یہ پہچان پارٹی کی اپنی پالیسی ہے یا وہ استعمال ہو رہے ہیں اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا۔

اے پی سی کے دو دن بعد ہی چیئر مین نیب جسٹس(ر) جاوید اقبال کے 18ستمبر کے دستخط شدہ ایک اجازت نامہ کی کاپی کے ساتھ مولانا فضل الرحمان کو پشاور نیب آفس میں یکم اکتوبر کو پیش ہونے کے لیے کہا گیاتاکہ وہ خود پر لگائے گئے کرپشن اور آمدنی سے زائد اثاثوں کی وضاحت دے سکیں۔اس طلبی کو مولانا اور اپوزیشن نے سخت ناگواری سے دیکھا۔ عام طور پر اپوزیشن حکومت پر الزام لگاتی رہی ہے کہ وہ نیب کو سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کررہی ہے۔ مولانا پر اس سے پہلے 1994 اور 1995 میں کرپشن کے الزامات لگ چکے ہیں۔ اس طلبی پر مولانا کے آبائی حلقے ڈیرہ اسماعیل خان میں احتجاج اور حکومت مخالف مظاہرے ہوئے۔ جس پر پکڑ دھکڑ ہوئی اور کارکنوں کے خلاف ایف آئی آر بھی کٹوائی گئی۔ 24ستمبر کو نیب حکام نے مولانا کے ایک قریبی ساتھی موسیٰ خان کو پشاور میں کرپشن ہی کے الزام میں حراست میں لے لیا۔موسیٰ خان جے یو آئی کی سنٹرل کمیٹی کے رکن اور پہاڑپور تحصیل کے امیر ہیں۔

مولانا فضل الرحمان کے بھائی مولاناعطاالرحمان نے ایک ٹی وی پروگرام میں ان گرفتاریوں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اگر مولانا کی نیب میں طلبی کے احکامات کو واپس نہ لیا گیا اور کارکنان کو ہراساں کرنے کا سلسلہ ختم نہ ہوا تو کارکنان پشاور کور کمانڈر کے گھر کے باہر دھرنا دیں گے۔ اس پر خیبر پختونخوا نیب نے ایک اعلامیہ میں واضح کیا کہ نیب کے پاس مولانا کے خلاف آمدن سے زائد اخراجات کا کیس زیر تفتیش ہے تاہم اس سلسلے میں ضرورت پڑنے پر قانون کے مطابق مولانا کو اپنا نکتہ نظر پیش کرنے کے لئے کہا جائے گا۔

مولانا فضل الرحمان نے اس سے قبل 24 ستمبر کو جے یو آئی سندھ کی ایک تقریب میں دھمکی آمیز لہجہ میں کہا کہ نیب جو مجھے گرفتار کر رہا ہے اورمیرے نام پر تم نے جو کچھ لکھا ہے وہ سب تم سے پورا کر کے رہوں گا۔ انہوں نے چیئرمین نیب کو پیغام دیا یہ جمعیت کے کار کنان ہیں تم سے الجھنا بھی جانتے ہیں اور تمھارا گریبان بھی پکڑنا جانتے ہیں۔ ہم تو اس دن کے انتطار میں تھے کہ تم ہمیں چھیڑو تو سہی۔ ہم اس حکو مت کا دھڑن تختہ کردیں گے۔ انھوں نے اس موقع پر فاٹا کی خصوصی حیثیت ختم کر کے پاکستان میں انضمام کو بھارت کے کشمیر کے انضمام جیسا قرار دیا۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ میں آج بھی کہتا ہوں کہ یہ فاٹا پر جبری قبضہ ہے اور وہاں فوج کا کنٹرول ہے بین الاقوامی برادری کو اس کا نوٹس لینا چاہیئے۔ ایسا ہی ایک عمل اب گلگت بلتستان میں ہونے جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہاعسکری قیادت نے سیاسی رہنماؤں کو گلگت بلتستان کے پاکستان میں انضمام کے لیے بلایا اور اس آئیڈیا کو سب نے رد کر دیا لیکن یہ نکتہ کوئی نہیں بتا رہا۔مولانا نے مزید کہا کہ ہم نے سیاست کے میدان میں کچی گولیاں نہیں کھیلیں۔ فوج کو واضح طور پر بتانا ہو گا کہ لوگ فوج کے نمائندے بن کر بات کر رہے ہیں۔اور اگر ایسا ہے تو انھیں روکا جائے ورنہ مجھے بھی اجازت ہے کہ میں اپنی بات کہوں۔ مولانا نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہاکہ اس حکومت میں کوئی قانون سازی نہیں ہوئی صرف فیٹف اور آرمی چیف کی مدت ملازمت میں تو سیع کا قانون پاس کروایا گیا۔ فیٹف کے قانون نے ہماری آزادی سلب کر لی ہے۔ وقف املاک کے لیے مذہبی حلقوں میں اختلاف پیدا کیا اور اس کے دھوکے میں قانون پاس کرالیا۔اس کے بعد جو بات اقوام متحدہ میں قرارداد کے صورت میں پیش ہو گی وہ ہمارے ہاں قانون بن جائے گی۔ ہم اپنے ملک میں رہتے ہوئے بھی آزاد نہیں رہے۔
مولانا فضل الرحمان کے جارحا نہ تیور اور اپوزیشن کی سیاست کے درمیان اداروں کو پھونک پھونک کر قدم رکھنے پڑیں گے۔ملا قاتوں کی اندرونی کہانیاں کچھ بھی ہوں تما م فریقین کو ملکی مفاد کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہےوگرنہ گلگت بلتستان کا معاملہ حکومت اور اپوزیشن کی کشمکش کا شکار ہو سکتا ہے۔
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com
بدھ،30 ستمبر2020
