پاکستان قومی اتحادیاپاکستان نیشنل الائنس محض ایک اتحاد تھاجبکہ پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ ایک تحریک ہے یہ فرق ہمیں بتاتا ہے کہ 1977 میں کیا کھیل کھیلا گیا تھا اوراب کون سا کھیل کھیلا جانے والا ہے۔ پاکستان نیشنل الائنس ایک بین الاقوامی ایجنڈےپرعمل پیراتھی جس کا مقصد بھٹو سے نجات حاصل کرنا تھی۔
بھٹوکا جرم ایٹمی پروگرام کاآغاز کرنااورپاکستان میں او آئی سی کا اجلاس معنقد کروا کہ مسلم دنیا میں اتحاد پیداکرناتھااوراس اجلاس کے بعدشاہ فیصل نے اس بے یارو مددگار تنظیم کی رہنمائی کی زمہ داری قبول کرلی۔ بھٹو نے ہی کراکرم ہائے وے کے ذریعے چائنا سے جوڑا۔ بھٹو سیاسی طور پر بہت مضبوط تھا اس لیے اس کو غیر سیاسی طریقے سے اقتدار سے برطرف کیا گیا۔ اس مقصد کے لیے مذبی اور سیاسی جماعتوں نے مل کر بھٹو کے خلاف سازش کی ۔ ان سیاسی شخصیات میں ایسے لوگ بھی تھے جو بھٹو کی اقتدار سے ہٹانے کے لیے فوج کی مدد لینے کو بھی مکمل تیار تھےاور چاہتے تھے کہ فوج اقتدار پر قبضہ کر لے کیونکہ فوج کے مضبوط ہاتھ کے بغیر امریکی ایجنڈا پایا تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔ یہ سب کچھ طے شدہ منصبوے کے مطابق ہوا اور بھٹو کے بعد شاہ فیصل سے بھی چھٹکارا حاصل کر لیا گیا۔
پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ مکمل طور پر الگ تحریک ہے اس کا کوئی بین الاقوامی ایجنڈا نہیں ہے ۔ یہ جمہوری طریقے کو استعمال کر کے تبدیلی لانے کی خواہاں ہے نہ کہ عمران خان کی طرح ریاست مدینہ کا نعرہ لگا کر پاکستان میں حقیقی معاشی اور سماجی تبدیلی لانے کا دعوی ہے۔ عمران خان کے دعوے میں بدعنوانی کے خلاف جنگ کا نعرہ بھی شامل تھا اور گزشتہ دو سالوں سے تحریک انصاف کے اس نعرے کی وجہ سے پاکستانی سیاستدانوں کے خلاف مہم جاری ہے۔ اور یہ مہم اس بے رحمی سے جاری ہے کہ اس نے تمام سیاسی جماعتوں اور جمہوری اقدار کو پائمال کر دیا ہے۔ نیب ، ایف آئی اے اور دیگر قانونی ادارے بدعنوان عناصر کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہیں جبکہ عام آدمی کی زندگی میں بہتری کے کہیں آثار نظر نہیں آتے۔ طاقت کا بے مہار استعمال اور حکمران طبقے کی نااہلی کی وجہ سے اس کی مقبولیت میں کمی دیکھی گئی ہے ۔ جبکہ پریس کے خلاف حکومتی اقدامات نےریاست کےحکمرانی کے اخلاقی جواز کو بھی ختم کردیا ہے۔
اس صورت حال نے اپوزیشن کے لیے ملک میں سانس لینا مشکل بنا دیا ہے جس کے جواب میں اپوزیشن آپس میں اتحاد پر مجبورہوگئی ہے ۔پی پی پی کے نوجوان رہنما بلاول بھٹو زرداری نے اپوزیشن کو یکجا کرنے یں اہم کردارادا کیا ہے۔ یہ اتحادجو مضبوط سیاسی پارٹیوں اورایک مذہبی گروپ پرمشتمل ہے جو کہ ایک بڑےہجوم کو کسی بھی وقت اکٹھا کر سکتا ہے جیسا کہ اس نےگزشتہ برس اسلام آباد میں کیا۔ اپوزیشن جماعتیں جب بھی اکٹھی ہوئی ہیں عمران خان نے انہیں چوروں کا گٹھ جوڑ اور اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار قرار دیا ہے۔ عمران خان یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا رویہ عوام کے رویے کے ساتھ ساتھ بدلتا ہے۔ اس وقت عمراب خان کے پاس دو رستے ہیں۔
اول ، مفاہمتی طرز عمل اپنائیں اور قبل از وقت انتخاب کا کوئی سیاسی حل نکالیں جس کے نتیجے میں ایک مشترکہ حکومت قیام میں آئے اور ملک کو تکلیف دہ انتقال اقتدار کے عمل سے بچا لے ۔
دوم، اپوزیشن کو اپنا کام کرنے دے اور عمران خان ان کا اختتام تک مقابلہ کرے۔
عمران خان اپوزیشن سے ملاقات کو سخت ناپسند کرتے ہیں اسی لیے آرمی چیف نے اپوزیشن سے ملاقات کر کے تناؤ ختم کرنے کی کوشش کی۔ وہ جانتے ہیں کہ عمران خان آخری گیند تک لڑے گا اور وہ چاہے گا کہ اپوزیشن کے ساتھ تمام معاملا ت میدان میں طے ہوں۔ موجودہ اپوزیشن نے جو سیاسی سٹریٹجی اپنائی ہے وہ پاکستان نیشنل الائنس سے بہت طرح سے مختلف ہے۔ جیسا کہ
۔ آل پارٹیز کانفرنس کا علامیہ کسی سیاسی رہنما کی بجائے مولانا فضل الرحمان نے پڑھا۔
۔اس تحریک میں قائدانہ کردار فضل الرحمان کو سونپا گیا ہے جس کا سیاسی ایجنڈا ہے جب کہ پاکستان نیشنل الائنس میں مذہبی جماعتوں نے انتہائی منفی کردار ادا کیا تھا۔ جس کا مطلب ہے کہ مستقبل میں کسی بھی نئے سیاسی سیٹ اپ کی صورت میں جمیعت علمائے اسلام بھرپور فائدہ اٹھائے گی۔ 2018 میں مذہبی جماعتوں نے مین سٹریم قومی سیاست میں داخل ہونے کی کوشش کی مگر ناکام رہے جیسا کہ مولانا سمیع الحق نے تحریک انصاف کا ساتھ دیا مگر بعد میں انہیں نظر انداز کر دیا گیا۔
۔ ان کے مباین کوئی اصغر خان نہیں ہے جو حالات خراب ہونے کی صورت میں فوج سے اپیل کرے کہ وہ اقتدار پر قبضہ کر لے
۔ نواز شریف نے اپنے اجلاس میں اہم معاملات پر توجہ مرکوز کرائی جن کی وجہ سے قومی اداروں کے مابین غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔
اپوزیشن کے خلاف طاقت کے استعمال کا فیصلہ ہوچکا ہے ۔ شہباز شریف سلاخوں کے پیچھے ہیں اور زرداری کے خلاف بھی فرد جرم عائد کر دی گئی ہے اور سیاسی الزام تراشیوں کا عمل شروع ہو چکا ہے ۔ عمران خان نے بھٹو کی ایف ایس ایف کی طرح ٹائیگر فورس کو استعمال کرنے کی کوشش کی ہے جس کے نتائج انتہائی بھیانک نکل سکتے ہیں اور حالات اس حد تک خراب ہوسکتے ہیں کہ مجبورا فوج کو اقتدار پر قبضہ کرنا نہ پڑ جائے جبکہ عوام مزید فوجی اقتدار کو قبول کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔
حکومت ساری اپوزیشن کو بدعنوان کہتی ہے کہ جبکہ ان میں اچھے اور صاف کردار کے لوگ بھی موجود ہیں اور ان کے پاس حکومت کرنے کا تجربہ اور اہلیت بھی ہے۔ اگر حالات خراب ہوئے تو ممکن ہے کہ ان لوگوں کو موقع دیا جائے۔ لوگ جمہوریت کو موقع دینے کے لیے تیار ہیں ۔ وہ جمہوریت کی تازہ فضا میں سانس لینا چاہتے ہیں اور اس حوالے سے عوامی سوچ حقیقت کا روپ دھار چکی ہے جس کو روکنا اب ممکن نہیں ہے۔
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com
