سپورٹ کشمیر انٹر نیشنل فورم کے چھٹے آن لائن سیشن کو جوائن کرنے کا موقع ملا۔ مقدمہ بیان کرتے ہوئے محترم نذر حافی صاحب نے کہا کہ بے حسی عام ہو چکی ہے۔ مسئلہ کشمیر سر مہری کا شکار ہے، اب کشمیر ڈے کی چھٹی کی خوشی منائی جاتی ہے۔ اہلیانِ کشمیر کے ساتھ ہونے والے مظالم کو درک کرنے والے بہت کم رہ گئے ہیں۔ قتل ، عصمت دری اور کرفیو ، یہ سب جس جگہ جمع ہیں اسے وادی کشمیر کہتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ کشمیریوں کا واویلا سننے والا کوئی نہیں۔ اس سیشن سے گفتگوکرتے ہوئے بلوچستان کے سیاسی و مذہبی رہنما جناب مقصود ڈومکی صاحب نے کشمیری عوام کو ، تحریکِ آزادی کشمیر کا، بنیادی فریق اور بانی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ آزادی اور حق خود ارادیت ہر قوم کا بنیادی حق ہے۔ ان کے مطابق، پاکستانی عوام، روز اول سے ، اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کے شانہ بشانہ موجود کھڑے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ایک لحاظ سےفلسطین اور کشمیر ایک دوسرے سے مشابہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ دونوں مقبوضہ علاقے ہیں، فلسطین پر یہودی اور کشمیر پرہندو قابض ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری امت مسلمہ فلسطینیوں کی طرح کشمیریوں کی بھی حمایت کرے۔
اس موقع پر انہوں نے حضرت امام خمینی کا نام لیتے ہوئے کہا کہ اُنہوں نے مسئلہ فلسطین کو اُمت مسلمہ کا مسئلہ بنا یا ۔اس مقصد کیلئے انہوں نے جمعة الوداع کو عالمی یوم القدس کا نام دیا۔ انہوں نے اس موقع پر کشمیر کو فلسطین سے بھی زیادہ مظلوم قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے سامنے کشمیر کو فقط علاقائی مسئلہ بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ صاف ظاہر ہے جب حکمرانوں کو اپنی کرسی بچانے کی پڑی ہو تو عوام کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں جناب مقصود ڈومکی صاحب نے کہا کہ پاکستان کی کشمیر کمیٹی نے، جناب مولانا فصل الرحمن کے دور سے لیکر آج تک، کوئی کردار ادا ہی نہیں کیا۔ کوئی ایک بھی قابلِ قدر غیر ملکی دورہ نہیں کیا۔ دنیا کے کسی دوسرے ملک کو اپنا ہم خیال نہیں بنایا۔ حکمرانوں کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
سیشن کے دوسرے مقرر جناب اکرم سہیل صاحب تھے۔ اکرم سہیل صاحب آزاد کشمیر کے سابق بیوروکریٹ، ادیب اور شاعرہیں۔ انہوں نے کہ دنیا گوبل ویلج بن چکی ہے۔ مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ پرویز مشرف کا فارمولا ہو، یا واجپائی کا ، وہ سب اپنی جگہ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس وقت مسئلہ کشمیر کہاں کھڑاہے؟ کشمیری شہدا کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہو چکی ہے۔ جموں و کشمیر ذبحہ خانے میں تبدیل ہو چکا ہیں ۔ بچوں کی آنکھیں، بندوق کی انی سے نکالی جاتی ہیں۔ مسلم امہ نے اسے کبھی عالمی مسئلہ قرار ہی نہیں دیا۔ سعودی عرب و امارات، اسرائیلی و امریکی کالونی بن چکے ہیں۔انہوں نے آج تک ایک جملہ بھی اپنے آقاوں کے خلاف نہیں بولا۔ انکی نظر میں کشمیر و فلسطین میں جو ہو رہا ہے وہ کم ہے ، بلکہ اس سے بھی زیادہ ہونا چاہئے تھا۔ اب بھی مسلمانوں کی آنکھیں نہیں کھلیں گی تو کب کھلیں گی؟

انڈیا نے پوری دنیا میں کشمیر کو علاقائی سطح کا مسئلہ بنا کر پیش کیاہے۔ دوسری طرف ہم مسئلہ کشمیر کو عالمی برادری کے سامنے ظلم و بربریت کے طور پر پیش کرنے میں ناکام ہوئے ہیں۔ ہم عالمی برادری تک، کشمیریوں کی آزادی اور حق خود ارادیت کی آواز نہیں پہنچا سکے۔ عمران خان حکومت نے ہرجمعۃ المبارک کے دن 10 منٹس تک خاموشی اختیار کرنے کا اعلان کیا تھا۔ انکی حکومت تو اتنا بھی نہ کر سکی۔ اسی دوران گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے جناب احمد میر نے کہا کہ پہلے کشمیر میں سنی بورڈ کے عنوان سے کام کیا جا رہا تھا۔ اب شیعہ بورڈ پر زور دیا جا رہا ہے۔ اس طرح کشمیریوں کو اب مذہبی منافرت میں دھکیلنےکی تیاری کی جا رہی ہے۔ انڈین آرمی کو کشمیر میں آباد کیا جا رہا ہے۔ اس طرح تو کشمیروں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی بھر پور کوشش جا ری ہے۔ یہ سلسلہ نہ روکا گیا تو بھارت ظلم کے مزید راستے کھلولے گا ۔ تعلیم کے دروازے بند کرے گا ۔ صحت کے تمام مواقع چھین لے گا۔ کشمیروں کے زندہ رہنے کا حق ختم کر دیا جائے گا۔
ان کے بعد محترم سہیل اکرم صاحب نے مولانا ڈاکٹر اسرار احمد رہ کی ایک تقریر کا ذکرکیا جس میں مولانا نے کہا تھا کہ کشمیر کی تحریک کو، تحریک حریت میں تبدیل کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ اگر اس تجویز پر عمل کیا جاتا تو آج کشمیریوں کی حالت یہ نہ ہوتی ، جو آج ہے۔انہوں نے کشمیریوں کی اندرونی وحدت اور کشمیر کے موضوع پر ایک عظیم مکالمے کی اہمیت پر زور دیا۔ان کا کہنا تھا کہ اس عظیم مکالمے میں ہندوستان، پاکستان اور کشمیریوں کو بھرپور نمائندگی دے کر اس مسئلے کا راہِ حل نکالا جائے۔
ابو آیت
پیر، 28 دسمبر 2020
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com
