افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد قطر میں بھارتی سفیر کی ایک اعلیٰ طالبان رہنما سے پہلی باضابطہ سفارتی ملاقات ہوئی ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بھارتی وزارت خارجہ نے بتایا کہ سفیر دیپک متل نے طالبان کی درخواست پر دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ شیر محمد عباس ستانکزئی سے ملاقات کی۔ وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ دونوں فریقوں نے افغانستان میں رہ جانے والے بھارتی شہریوں کی حفاظت پر تبادلہ خیال کیا۔ وزارت خارجہ نے کہا کہ متل نے بھارت کے اس خدشے سے بھی آگاہ کیا کہ بھارت مخالف عسکریت پسند افغانستان کی سرزمین کو حملوں کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب شیر عباس ستانکزئی نے کچھ روز قبل کہا تھا کہ طالبان بھارت کے ساتھ سیاسی اور معاشی تعلقات چاہتے ہیں۔ طالبان کی جانب سے بھارت کے ساتھ مذاکرات پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
یاد رہے کہ ھارت طالبان کو ایک دہشت گرد گروپ کہتا رہا ہے اور اب ان سے بات کرنا پڑ رہی ہے۔ بھارت کی یہ کوشش تھی کہ وہ کسی بھی طرح دنیا کی بڑی قوتوں کو ساتھ ملا کر طالبان کو تسلیم نہ کرنے کی بین الاقوامی کوششوں مہم کا آغاز کرے مگر امریکہ، چین اور روس کی جانب سے سرد پیغام کے بعد بھارت کو اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنی پڑ رہی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ بھارت اس وقت گوں مگوں کی کیفیت کا شکار ہے کیونکہ اس کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ طالبان کی حکمرانی کو باقاعدہ اور سرکاری سطح پر تسلیم کرے یا نہیں۔ بہرحال اس حوالے سے بھی رائے منقسم ہے۔ تاہم حالیہ ملاقات کے بعد ایسا لگ رہا ہے کہ بھارت کو مجبورا طالبان کو تسلیم کرنا پڑے گا یہی وجہ ہے کہ حالیہ بیانات میں طالبان کو دہشت گرد گروہ کہنے سے اجتناب کیا جا رہا ہے۔
بھارت نے افغانستان میں ترقیاتی کاموں میں تین ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی اور امریکہ کی حمایت یافتہ اشرف غنی حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے، لیکن طالبان کی تیزی سے پیش قدمی کے ساتھ، بھارتی حکومت کو طالبان کے ساتھ کسی قسم کے روابط نہ رکھنے پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بھارتی کے بھارت کے سیاسی رہنماؤں کے طالبان کے ساتھ غیر رسمی رابطے جون میں دوحہ میں قائم ہوئے تاہم بھارتی نیتاؤن کو اس وقت سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ طالبان کی غیر ملکی طاقتوں پر فتح سے مسلم اکثریتی کشمیر میں سرگرم حریت پسندوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ مگر چونکہ امریکہ کے ساتھ ایران کے تعلقات اچھے نہیں ہیں اس لیے وہ بھی بظاہر طالبان کو تسلیم کرنے کے حق میں نظر آ رہا ہے۔ یہ بات بھی انڈیا کے لیے باعثِ تشویش ہو سکتی ہے۔
اگر ماضی کی بات کی جائے تو انڈیا نے کبھی بھی طالبان کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ اس سے پہلے بھی جب ان کی حکومت تھی تو انڈیا نے سفارتی زبان میں جسے ’انگیج‘ کرنا یعنی بات چيت کرنا کہتے ہیں، وہ بھی نہیں کیا۔ صرف ایک بار جب انڈین ایئرلائن کے ایک طیارے کو شدت پسند اغوا کر کے قندھار لے گئے تھے تو پہلی اور آخری بار انڈیا نے طالبان کمانڈروں کے ساتھ باضابطہ بات چیت کی تھی۔ اس کے بعد سے انڈیا نے ہمیشہ خود کو طالبان سے دور رکھا۔ امریکی افواج کے انخلا کے عمل سے پہلے بھی جب دوحہ میں طالبان رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات ہوئے تو بھی انڈیا نے ان کے ساتھ ’انگیج‘ نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ انڈیا نے طالبان کے ساتھ پس پردہ مذاکرات کی تردید کی ہے۔ بھارت کو اس وقت سب سے زیادہ خدشہ مقبوضہ کشمیر کی جانب سے ہے جس میں طالبان کی آمد کے ساتھ شدت پسندی میں اضافہ ہوسکتا ہے اور ابھی تک یہ بات بھی طے نہیں ہے کہ طالبان کشمیر کے حوالے سے کیا مؤقف اختیار کرتے ہیں۔
طالبان کے سابقہ دور حکومت اور اس حکومت کے درمیان فرق صرف یہ ہے کہ اسے پہلے تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔ لیکن اس بار روس اور چین جیسے دنیا کے دو طاقتور ممالک اسے تسلیم کر رہے ہیں۔ یورپ کے ممالک بھی ایسا ہی کریں گے کیونکہ اس سے انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسی سبب اس بار انڈیا کے لیے اپنی سلامتی اور خودمختاری کے پیش نظر طالبان کے ساتھ ’ڈیل‘ کرنا بہت اہم ہو جائے گا۔‘ جہاں ایک طرف بھارتی تجزیہ نگار یہ سوچ رہے ہیں کہ بھارت کو ابھی صبر سے کام لینا چاہیے اور جب تک افغانستان میں صورتحال واضح نہ ہوجائے تب تک طالبان کے حوالے سے خاموشی اختیار کرنی چاہیے تاہم دوسری جانب بھارت کو یہ بھی خدشہ ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ مشغول ہونے میں جتنا زیادہ وقت لے گا پاکستان اس سے براہ راست فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا۔ بھارت کا ایک خیال یہ بھی ہے کہ سابق طالبان مکمل طور پر پاکستان کے کنٹرول میں رہے۔ مگر اب طالبان کا پاکستان کے ساتھ رویہ پہلے جیسے رہے یہ ضروری نہیں ہے۔‘
طالبان بھی اس وقت کوشش کر رہے ہیں کہ دنیا میں وہ اچھا تاثر پیش کریں اور تمام ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کریں کیونکہ بین الاقوامی حمایت کے بغیر ان کی حکومت کا قیام ممکن نہیں ہے اور بین الاقوامی تعلقات کے بغیر وہ کسی صورت افغانستنان کو نہیں چلا سکتے یہی وجہ ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد طالبان نے واضح طور پر کہہ دیا کہ بھارت نے افغانستان میں جو کنسٹرکشن اور انفراسٹریکچر کے منصوبے لگائے ہیں، انہیں مکمل کرے، کیونکہ وہ عوام کیلئے ہے۔ لیکن اگر افغانستان کی سرزمین کواپنے عسکری مقاصد اور حریفوں کیخلاف استعمال کرنے کی کوشش کی تو ہم اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ بھارت کے لیے یہ مناسب موقع ہے کہ وہ طالبان کو تسلیم کرے اور اپنے سابقہ رویوں کی معافی مانگ کر طالبان کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرے اور یہی مشورہ اسے اپنے دیرینہ حلیفوں روس اورامریکہ کی طرف سے دیا گیا ہے۔ دیکھنا ہے کہ مودی سرکار طالبان کے حوالے سے کیا حکمت عملی اپناتی ہے۔