چیئرمین تاج حیدر کی زیرِ صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کا اجلاس ہوا جس میں الیکٹرنک ووٹنگ مشین کے معاملے پر بات کرتے ہوئے اعظم سواتی نے الزام عائد کر دیا کہ الیکشن کمیشن نے پیسے پکڑے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن ملک کی جمہوریت کو تباہ کرنے کا باعث ہے، آپ جہنم میں جائیں، ایسے اداروں کو آگ لگا دیں۔اعظم سواتی کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن ہمیشہ دھاندلی کرتا رہا ہے، الیکشن کمیشن ملک کی جمہوریت کو تباہ کرنے کا ضامن ہے۔اعظم سواتی کے الزامات پر الیکشن کمیشن کے حکام کمیٹی کے اجلاس سے واک آؤٹ کر گئے۔
دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے کہا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر حکومت کے پاس دلیل نہیں دھمکی ہے۔ شہباز شریف نے سینیٹ کی پارلیمانی امور کی کمیٹی میں حکومتی دھمکیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر حکومت کے پاس دلیل نہیں دھمکی ہے، ای وی ایم کا آئیڈیا مسترد کرنے پر حکومت الیکشن کمیشن کو دھمکانے پر اتر آئی ہے۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ثابت ہوگیا کہ حکومت کے پاس ووٹنگ مشین پر اٹھنے والے فنی و تکنیکی سوالات کا کوئی جواب نہیں، الیکشن کمیشن نے ووٹنگ مشین کے حوالے سے ٹھوس اور واضح فنی، تکنیکی اور قانونی اعتراضات کئے ہیں، شفافیت کے مسائل کی نشاندہی کی ہے جن کا حکومت کے پاس کوئی جواب نہیں۔
یاد رہے کہ نواز شریف پر 2013 ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا حالاں کہ وہ منظر پر موجود نہیں تھے۔ ایک سابق چیف جسٹس آف پاکستان کے انکوائری کمیشن کے مطابق وہ انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہوئے تھے۔ 2018ء کے عام انتخابات میں نصف شب کو نامعلوم طور پر آرٹی ایس سسٹم بیٹھ گیا اور عمران خان جیت گئے۔ اُس وقت کے نادرا کے سربراہ کا کہنا تھا سسٹم کو جان بوجھ کر بند کیا گیا تھا۔ اسی دوران تحریک انصاف کو چالیس کے قریب اضافی نشستیں دلا دی گئیں۔ اب عمران خان دھاندلی زدہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں، آرٹی ایس اور سترلاکھ سمندرپار پاکستانیوں کے انٹرنیٹ کے ذریعے ارسال کردہ ووٹوں کے بل بوتے پر دوسری مدت کے لیے جیتنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ الیکشن کمیشن اور حزب اختلاف کی جماعتیں ان اقدامات کے خلاف ہیں۔ لیکن کسی کو ان میں بدعنوانی کا شائبہ تک دکھائی نہیں دیتا۔
سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے نہ حکومت کی مگر ایسا لگ رہا ہے جیسے حکومت اس ذمہ داری کو اپنے سر لے کر الیکشن کمیشن کو ایک طرف کر دینا چاہتی ہے۔ حکومت بھی اس بات کو تسلیم تو ضرور کرتی ہے کہ انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کا کام ہے لیکن دوسری طرف ان پر مبینہ طور پر دباؤ ڈالتے ہوئے الیکشن کمیشن کے حکام کو اس بات پر مجبور کر رہی ہے کہ وہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے حق میں بات کرے اور حکومت کی اس خواہش کو پورا کرے۔ حکومت کی اس خواہش کا یہ عالم ہے کہ الیکشن کمیشن نے ابھی ووٹنگ مشین کے استعمال کی منظوری بھی نہیں دی لیکن اس کے باوجود حکومت نے موجودہ بجٹ میں ان مشینوں کی خریداری کی مد میں کروڑوں روپے رکھے ہیں۔ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے کے لیے آئین میں ترمیم کرنا ضروری ہے لیکن حکومت سادہ اکثریت سے اس بل کو پارلیمنٹ سے منظور کروا کر اس پر عمل درآمد کرنے پر بضد ہے۔
اگرچہ حکومتی وزیر اور ای وی ایم کے استعمال کے بارے میں پڑوسی ملک کا حوالہ دیتے ہیں تاہم وہ یہ بات بتانا بھول جاتے ہیں کہ بھارت کی اپوزیشن جماعتیں الیکٹرانک ووٹنگ پر شدید تحفظات کا اظہار کر چکی ہیں۔ بھارت کے حالیہ انتخابات سے قبل کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا ’سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کے ذہن میں ای وی ایم کے صحیح ہونے کے بارے میں شکوک ہیں۔ ہم (مشین کے ذریعے ڈالے گئے) ووٹوں کا ایک متبادل نظام چاہتے ہیں تاکہ لوگوں کا انتخابی نظام میں اعتبار برقرار رہے۔‘ یاد رہے کہ امریکہ میں مقیم ایک ٹیکنولوجسٹ سید شجاع نے لندن میں ایک پریس کانفرنس میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ کا انڈیا کی ووٹنگ مشینوں کو ہیک کیا جا سکتا ہے۔ اس نے یہ بھی دعوی کیا کہ 2014 کے انتخابات میں ان مشینوں کے ذریعے دھاندلی کی گئی تھی۔ پس سوال یہ ہے کہ اگر بھارت میں ان مشینوں کو ہیک کیا جاسکتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں؟
یاد رہے کہ بھارتی ریاست مدھیہ پردیش میں اپریل 2017 میں ہونے والے ضمنی انتخابات سے قبل ریاست میں ووٹنگ مشین کے ذریعے کیے جانے والے تجربے میں دیکھا گیا ہے کہ چاہے کوئی بھی بٹن دبایا جائے مشین صرف وزیراعظم کی جماعت کے لیے ہی ووٹ پرنٹ کرتی ہے۔ اس کے بعد بھارتی الیکشن کمیشن نے اس پر اپنا وضاحتی بیان بھی جاری کیا تھا تاہم اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان مشینوں سے دھاندلی کا عمل ممکن ہے۔ پاکستان کے الیکشن کمیشن کی جانب سے ہزارہا اعتراضات کے باوجود بجائے حکومت ان اعتراضات کے ٹھوس جواب دے وہ بس یہ چاہتی ہے کہ کسی بھی طرح الیکٹرانک ووٹنگ کا نظام لاگو کیا جائے۔ حکومت کے اس پرزور اصرار سے لگتا ہے کہ دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ ساری دال ہی کالی ہے۔