مشہور مقولہ ہے کہ بے وقوف دوست سے عقلمند دشمن بہتر ہوتا ہےاور یہی کچھ اگر عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات کے بارے میں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ کس طرح عمران خان فوج کے لیے ایک بے وقوف ترین دوست ثابت ہوئے ہیں جن کی کوتاہ بینی نے ادارے کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ۔ آئی ایس آئی سربراہ کے معمول کے تبادلے کی کہانی جس نے 20 دن سے زائد عرصے کے لئے پوری قوم کو سولی پر ٹانگے رکھا، اور درمیان میں کئی ایسے مواقع آئے جب لگتا تھا کہ ملک کے دو بڑوں یعنی وزیر اعظم اور آرمی چیف میں تصادم ہوا ہی چاہتا ہے اور اب اختیار کا فیصلہ ہو کر رہے گا، بالآخر اپنے اختتام کو پہنچی۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر یہی سب کچھ کرنا تھا تو بیچ چوراہے میں یوں پیٹ سے کپڑا اٹھانے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر دونوں ایک ہی صفحے پر موجود تھے تو خواہ کتنا ہی لمبا وقت درکار ہوتا، انہیں بند کمروں میں بات چیت کر کے اس حوالے سے فیصلہ کر لینا چاہیے تھا۔
اگرچہ اس ہفتے آئی ایس آئی چیف کی نامزدگی پر تنازع ختم ہو گیا۔ اس تعطل کی حقیقت، اس کی ابتدا اور ڈرامائی تاخیر کو آسانی سے بھلایا نہیں جا سکتا۔ اس وقت تحریک انصاف کے ووٹرز جو کہ ایوان اقتدار سے ہزاروں کلومیٹر دور بیٹھے صرف سیاسی تشبیہات اور تصاویر پر ہی ملک میں چلنے والے معاملات پر فتوے صادر کر دیتے ہیں ان سے پوچھا جائے تو وہ اس اعلیٰ سطحی ڈرامائی تین ہفتوں کو ایک عامیانہ سا معاملہ قرار دے رہے ہیں۔ جب کہ عمران خان کی حکومت میں اچانک سے اہم ترین عہدوں پر تعینات ہونے والے گفتار کے غازی کہلائے جانے والے ٹینکوکریٹ ٹائپ لیڈرز کا بھی یہی بیانیہ ہے۔
تاہم، پرانے سیاسی کھلاڑی جو ہر پانچ سال بعد دہاڑی لگنے یا نہ لگنے کی صورت میں شہر سیاست کا کوچہ کوچہ اور گلی گلی گھومتے ہیں ان سے گپ شپ ہو تو وہ ابہام نہیں رکھتے کہ آگے کیا ہونے جا رہا ہے۔ ہر مؤقر صحافتی اشاعت اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو کو کیا ہونے جا رہا ہے کے سوال کا واضح جواب ملے گا۔ مثال کے طور پر ڈان اخبار کا اداریہ ملاحظہ ہو۔ اداریہ کہتا ہے کہ وزیر اعظم نے نئے سربراہ کے لئے نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے، لیکن تین ہفتوں کی قیاس آرائیوں، غیر یقینی صورتحال اور سیاسی ڈرامے کے یقیناً سول ملٹری تعلقات کی شکل کے ساتھ ساتھ سویلین اطراف کے نازک تصور پر بھی دیرپا اثرات مرتب ہوں گے۔
اب ایک خبر یہ بھی ہے کہ نواز شریف دسمبر میں آ رہے ہیں جو کہ پہے مذاق لگتا تھا اب نہیں لگتا بہت ہی معنی خیز ہے۔ معلوم یہ پڑتا ہے کہ اس بار سردیاں پڑتے ہی وزیر اعظم عمران خان کو سیاسی میدان میں سے لو کے تھپیڑے آتے محسوس ہوں گے اور اس بار ان کی اتحادیوں کی حمایت جو کہ گذشتہ الیکشن سے لے کر اب تک کسی نا کسی حالت میں ان کے ساتھ ہی تھی وہ بھی ہٹ جائے گی۔ بقول امیر جماعت اسلامی بیساکھیاں ہٹ گئیں تو یہ حکومت کچھ دیر نہ ٹھہر سکے گی۔ لیکن کئی تجزیہ کار اور خاص کرحامیانِ عمران اس بات پر بضد ہیں کہ تین سال کی بدترین پرفارمنس کے باوجود اگر اسٹیبلشمنٹ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو جاری رکھے ہوئے ہے تو اب آخری دو سال میں وہ اس حکومت کو ہٹا کر گناہ بے لذت کیوں کرے گی؟
بہر حال یہ لذت گناہ ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے۔ دیکھنا ہے کہ میاں نواز شریف کی واپسی سے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ میاں صاحب کی واپسی یقینی طور پر اپنے آپ نہیں ہوگی وہ کسی ڈیل ، کسی معاہدے یا کسی گارنٹی کے بغیر ہرگز واپس نہیں آئیں گے۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ انہیں یہ تسلی اور یہ ضمانت کون دیتا ہے؟ اگر واپسی کی ضمانت انہیں موجودہ آرمی چیف دیتے ہیں تو پھر عمران خان کے لیے مشکلات کا دور شروع ہوجائے گا۔ اور عمران خان اور ان کے وزراء جو میڈیا پر بڑے دھڑلے سے کہتے ہیں کہ اگلے پانچ سال بھی ان کے ہیں وہ کہیں دبکے ہوئے دکھائی دیں گے اور خود خان صاحب کو بھی ایسا لگ رہا ہے کہ چیس بورڈ پر مہرے آگے پیچھے ہونے میں دیر نہیں لگتی اور ممکن ہے اب وہ شاہ نہ رہیں۔ اس لیے مزید تصادم کی خبریں بھی شاید جلد موصول ہونا شروع ہوجائیں جس کا سراسر نقصان تحریک انصاف کو ہوگا جو عوام کی نظروں سے پہلے ہی بہت گہری گر چکی ہے۔