پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ جس سے بھی غلطی ہوئی اب مسئلے کا ایک ہی حل جلد از جلد الیکشن ہیں، ہم تصادم نہیں چاہتے مگر نئے انتخابات تک اپنی پُرامن جدوجہد جاری رکھیں گے اور امپورٹڈ حکومت کو کسی صورت تسلیم نہیں کریں گے۔سابق وزیراعظم عمران خان نے موجودہ حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے عوام سے کہاوہ ملک میں تصادم نہیں چاہتے لیکن کارکنوں میری کال کا انتظار کرو جلد آپ کو اسلام آباد بلاؤں گا. ایسا لگ رہا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ رواں سال نومبر میں اہم ادارے میں کوئی تبدیلی ہو جائے گی، تو یہ ان کی خواہش ہی رہے گی، ایسا کچھ نہیں ہوگا۔
عمران خان کے لیے شاید یہ ممکن نہ ہو کہ وہ جلد اپنا لانگ مارچ شروع کر سکیں بلکہ شاید یہ معاملہ اگست یا ستمبر تک چلا جائے گا کیونکہ عیدالفطر کے فوری بعد ایسا کرنا ممکن نظر نہیں آ رہا۔ مئی، جون اور جولائی صوبہ پنجاب میں گرمی کے حوالے سے بہت سخت ترین مہینے ہیں۔ دوسرا یہ کہ پنجاب کی بجائے ہو سکتا ہے کہ وہ خیبرپختونخوا سے جلوس کی شکل میں اسلام آباد داخل ہونے کی کوشش کریں۔بعض تجزیہ نگاروں جیسا کہ مزمل سہر وردی کا کہنا ہے کہ عمران خان جس کا استعفیٰ مانگنا چاہتے ہیں، وہ نام ان کی زبان پر نہیں آ رہا۔ استعفیٰ تو ان کو آرمی چیف جنرل باجوہ کا چاہیے۔ وہ کیوں نہیں کہتے کہ جنرل باجوہ نے مجھے اقتدار سے نکالا، مجھے ان کا استعفیٰ چاہیے۔ مزمل سہروردی نے دعویٰ کیا کہ آج میں دوبارہ نیا دور ٹی وی کے پلیٹ فارم سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ نومبر 2022ء کو کوئی تبدیلی نہیں ہونی۔ ”ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے” عمران خان اگر کسی تبدیلی کی امید پر بیٹھے ہیں تو ایسا کچھ نہیں ہونا۔
اس وقت یوں لگ رہا ہے کہ بظاہر ایمپائر نیوٹرل ہوگیا ہے۔ عدم اعتماد کے ذریعے پی ٹی آئی حکومت چلتی بنی۔ کابینہ بننے کا پہلا مرحلہ تکمیل کو پہنچا اور پچیدگیاں دوسرے مرحلے پر چھوڑ دی گئیں۔ شاید دوسرا مرحلہ بھی سیاسی بھاؤ تاؤ اور کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر پایہ تکمیل تک پہنچ جائیگا۔ آخر اس ملک کے سیاستدانوں کی مہارت بھی اس میں کچھ کم نہیں ہے۔ تاہم اب تک جو ہو رہا ہے وہ زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔ پہلی حقیقت تو یہ ہے کہ رجیم چینج متحدہ اپوزیشن کی سیاسی جدوجہد اور دباؤ کے نتیجے میں نہیں آئی بلکہ حکومت ناقص ترتیب وتشکیل کی وجہ سے چلنے سے قاصر تھی۔ سہارا دینے والے تھک چکے تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ اس طرح دھڑام سے گریں جس کے نیچے وہ خود آکر اپاہج ہو جائیں۔
اب تک تو سلسلہ نیوٹرل یا غیر جانبداری سے شروع ہوا تھا اور غیر سیاسی تک پہنچا۔ یہ سب رضا کارانہ اقدام کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ بھلا تاریخ میں کسی نے رضا کارانہ طور اقتدار چھوڑا ہے جس میں صرف اختیار اور اقتدار ہو، جس میں نیک نامی اپنے کھاتہ میں اور بدنامی کسی اور کے حصہ میں، جس میں پس آئینہ کوئی اور، پیش آئینہ کوئی اور، جس میں کوئی باز پرس اور محاسبہ نہ ہو؟موجودہ جانبداری کے دور میں بھی سلامتی، جو کسی بھی وقت خیمے میں عربی کا اونٹ بن سکتا ہے، پر مہارت کی بنیاد پر دھیمے لیکن پرزور انداز میں اجارہ داری کے اشارے دیئے جا رہے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ یہی سلامتی تو ہے جس نے اتنے پھل پھول کر آئین اور باقی ریاستی اعضا کو اپاہج بنا دیا۔میرے خیال میں اس میں کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ موجودہ لچکدار رویے کا سبب کوئی اندرونی و بیرونی سیاسی دباؤ یا پی ڈی ایم کے جلسے جلوس نہیں بلکہ معاشی ابتری کا دباؤ ہے۔
فی الوقت تو عمران خان کا کردار نہ کھیلوں گا اور نہ کھیلنے دوں گا والا ہے، اور نہ ان کا مسئلہ عوامی اور آئینی بالا دستی کا ہے۔ اس نے تو ایک دفعہ پھر سے کسی بھی قیمت پر حکومت میں آنا ہے۔ لیکن متحدہ اپوزیشن جس نے موجودہ حکومت بنائی ہے، کیا حقیقت میں متحد ہے اور اگر متحد ہے تو کس مقصد کیلئے؟ کیا مقصد اپنی اپنی پارٹی اور خاندانوں کیلئے زیادہ سے زیادہ وزارتیں اور حصہ حاصل کرنا ہے؟ باقی مانندہ عرصہ حکومت کرنا، مانگے تانگے سے معیشت میں تھوڑی سی وقتی رونق پیدا کرنا اور اگلے انتخابات میں اپنا اپنا حصہ بقدری جثہ یقینی کرنا ہے، اور پھر سے بدنام و بے آبرو ہو کر نکلنا ہے یا ایک وسیع قومی مباحثے کا اہتمام کرکے پہلے سیاست کو آزاد کرنے، آئینی اور پارلیمان کے بالادستی، خصوصاً قومی وسائل کی تقسیم کو یقینی بنانے کیلے ایک قومی چارٹر پیش کرکے اس کے من وعن نفاذ کیلئے قابل عمل لائحہ عمل وضع کرنا ہے۔
موجودہ سیاسی منظر نامے میں حکومت کے لئے خطرہ بھی ہے اور موقع بھی۔ دیکھتے ہیں کہ اس کے شرکا کی نظر اونٹ پر لدے ہوئے سونے کے جواہرات پر ہے یا اس کے گلے میں لٹکے ہوئے جرس پر۔