پاکستان کے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے ملک میں قبل از وقت انتخابات کی حمایت کردی ہے۔ ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ نواز شریف نے پارٹی کی سینئر قیادت سے مرکز میں حکومت چھوڑنے کے آپشن پر بات کی ہے۔ نواز شریف اور وزیراعظم شہباز شریف سمیت پارٹی کے اعلیٰ رہنماؤں اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ سے بھی کئی بار اس پر بات کر چکے ہیں۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ نواز شریف نے مشورہ دیا کہ حکومت میں مزید رہنا مسائل کو حل کرنے کے بجائے مزید مسائل پیدا کرنے کا عندیہ دے رہا ہے جب کہ حکومت کو تمام ریاستی اداروں سے حقیقی حمایت حاصل ہونی چاہیے تھی۔ ذرائع کے مطابق آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان سمیت پی ڈی ایم کے رہنماؤں نے اب تک حکومت چھوڑنے کے خیال کی مخالفت کی ہے لیکن پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنانے کے سپریم کورٹ کے فیصلے سے اس کے امکان دکھائی دے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ عمران خان نے پنجاب کے ضمنی انتخابات میں جیت کے بعد ایک بار پھر حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کو یہ ہی واضح پیغام دیا ہے کہ وہ فوری طور پر انتخابات چاہتے ہیں۔ ان کے بقول اگر حکومت فوری انتخاب کا راستہ اختیار کرتی ہے یا اس کی تاریخ کا اعلان کرتی ہے تو ان کی جماعت عملاً حکومت کے ساتھ بیٹھ کر شفاف انتخابات، الیکشن کمیشن اور انتخابی اصلاحات پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ عمران خان کے بقول یہ تاثر درست نہیں کہ وہ بات چیت کے خلاف ہیں بلکہ ان کی بڑی شرط بات چیت سے قبل انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہے۔
حکمران جماعت کے بقول یہ عمران خان کی سیاسی قیادت سمیت اسٹیبلیشمنٹ پر دھمکی بھی یا سب کو سیاسی دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے اور کسی ایک فرد واحد کی خواہش پر فوری انتخابات ممکن نہیں۔ بنیادی طور پر عمران خان حکومت کی تبدیلی کے بعد یہ جو تاثر تھا کہ نئی سیاسی حکمران قیادت ملک کے سیاسی و معاشی حالات کو کنٹرول کر لے گی، غلط ثابت ہوا۔ یعنی رجیم چینج کے نام پر جو بھی تبدیلی کا کھیل کھیلا گیا وہ عملی سطح پر اپنے مطلوبہ سیاسی نتائج دینے کی بجائے حالات کو اور زیادہ سنگینی کی طرف لے آیا ہے۔
جب ملک میں سیاسی فریقین کے درمیان محاذ آرائی بڑھے گی تو اس کے نتیجے میں صرف سیاسی بحران ہی نہیں بلکہ اس کا براہ راست اثر معاشی بحران کی صورت میں بھی نمودار ہو گا۔ دنیا میں موجود مالیاتی ادارے یا عالمی ممالک جو مالیاتی طور پر مستحکم ہیں وہ کیسے ایک ملک میں موجود غیر یقینی صورتحال میں سرمایہ کاری یا سیاسی بھروسا کر سکتے ہیں۔ آئی ایم ایف بھی کی پاکستانی معاملات پر گہری نظر ہے اور ان کو اندازہ ہے کہ اس وقت پاکستان کے سیاسی حالات میں جو غیر یقینی ہے اس کی موجودگی میں موجود حکومت پر زیادہ بھروسا نہیں کیا جاسکتا۔
اگر پاکستان نے معاشی طور پر مستحکم ہونا ہے تو ہمیں دو تین چیزیں فوری طور پر درکار ہیں۔ اول فوری انتخابات اور انتخابات کے نتیجے میں پانچ برس کی مدت پر مشتمل سیاسی حکومت جو لانگ ٹرم ، مڈٹرم اور شارٹ ٹرم فیصلے کرسکے۔ دوئم ہمیں چند ووٹوں پر مشتمل حکومت کے مقابلے میں ایک مضبوط اور مستحکم حکومت کی ضرورت ہے جو زیادہ جرات کے ساتھ بڑے سیاسی و معاشی فیصلے بھی کرسکے اور اتحادیوں کی بلیک میلنگ سے بھی بچ سکے۔ سوئم جو بھی نئی حکومت آئے اس کے پاس ایک واضح سیاسی اور معاشی روڈ میپ ہو جس میں اس کی اہم ترجیحات میں ملک میں معاشی و سیاسی اصلاحات بالخصوص ادارہ جاتی ڈھانچوں میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں شامل ہوں۔
آج حکومت اگر سمجھتی ہے کہ فوری انتخاب ان کے حق میں نہیں تو اگر انتخاب بعد میں ہوتے ہیں تو حکومت کے پاس ایسا کون سا اہم جادو ہے جس کی بنیاد پر وہ معاشی ترقی کا جال بچھا کر ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کر سکتی ہے۔ حالات کی سنگینی تو یہ ظاہر کرتی ہے کہ اگر حالات ایسے ہی چلتے رہے تو تو موجودہ حکومت کو آگے بھی بڑی سیاسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مسلم لیگ نون میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ نئے انتخابات ہی واحد آپشن ہے کیونکہ ہم آگے بھی عوامی مفاد میں کوئی بڑا معاشی ریلیف قوم کو نہیں دیں سکیں گے۔
جہاں تک آصف زرداری کا تعلق ہے وہ یقیناً فوری انتخابات کے حامی نہیں لیکن یہ فیصلہ ان کی جماعت کا ہے مسلم لیگ کو موجودہ حالات کو بنیاد بنا کر ایسا فیصلہ کرنا چاہیے جو ان کی سیاسی ساکھ سمیت ان کی سیاست کو بھی بچا سکے۔ کیونکہ جتنا انتخابات میں تاخیر ہوگی اتنی ہی ملک میں غیر یقینی سیاسی و معاشی صورتحال بھی عروج پر ہوگی اور مسلم لیگ نون کو بھی عوامی سیاست میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پنجاب میں اب جبکہ تحریک انصاف کی حکومت بن گئی ہے تو ایسے میں اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف کس حد تک سیاسی و معاشی طور پر ڈلیور کرسکیں گے خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔