سال 11 جولائی کو، بوسنیائی باشندے ،سریبرینیکا کے اقوام متحدہ کی جانب سے قرار دیے جانے والے محفوظ علاقے پر 1995 میں بوسنیائی سرب فوج کی جانب سے کیے جانے والےحملے کی برسی مناتے ہیں۔
اس حملے کے بعد ہونے والی والی نسل کشی 20،ویں صدی کے اختتام پر، یورپ کے اس حصے میں ہونے والی ساڑھے تین سالہ نسل کشی کا سب سے سفاکانہ مرحلہ تھا۔
ستائیس سال بعد، سریبرینیکا بوسنیایئوں کے لیے ایک کھلا زخم بنی ہوئی ہے۔ اس نسل کشی نے بوسنیائی باشندوں کی نسلوں میں سے اس نسل کو الگ شناخت دی ہے جو 1990 کی دہائی میں زندہ رہیں۔ صدمے کو 1995 کے بعد پیدا ہونے والی نسلیں محسوس کرتی ہیں، اور نسلی صدمے کو اگلی نسلوں تک پہنچایا جاتا ہے۔
نسل کشی کے صدمے اور دکھ کے علاوہ ودیگر دوعوامل بھی محسوس کیے جاتے ہیں۔
سب سے پہلے، جب کہ سریبرینیکا کی نسل کشی اچھی طرح سے دستاویزشدہ ہے، زیادہ تر مجرموں پر ابھی تک مقدمہ چلنا باقی ہے۔ ہولوکاسٹ کے بعد یورپ میں ہونے والے اس بدترین جرم میں ہزاروں کی تعداد میں نسل کشی کرنے والوں نے حصہ لیا۔ بوسنیائی سرب کےچوٹی کے رہنما– Radovan Karadžić اور Ratko Mladić – نسل کشی کے مرتکب تھے اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی، لیکن بے شمار دوسروں نے ذمہ داری سے بھاگ گئے۔
رسالہ ‘فارن پالیسی’ اس نا انصافی کے بارے میں اس طرح لکھتا ہے ‘گزشتہ ماہ، تاریخ کے سب سے طویل عرصے سے چلنے والے بین الاقوامی جنگی جرائم کے مقدمے میں سربیا کے دو سابق اہلکاروں کو آخر کار بوسنیا اور کروشیا میں جنگی جرائم کی "مدد اور حوصلہ افزائی” کے جرم میں سزا سنائی گئی۔ سربیا کے ریاستی سیکورٹی اپریٹس کے سابق سربراہ جوویکا اسٹینسک اور ان کے نائب فرانکو "فرینکی” سماتووچ ان آخری مقدمات میں شامل تھے جنہیں بین الاقوامی فوجداری ٹربیونل برائے سابق یوگوسلاویہ (ICTY) نے سنایا تھا، جو اقوام متحدہ نے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم پر 1993 میں مقدمہ چلانے کے لیے قائم کیا تھا۔ ۔
ان دونوں کو صرف 12 سال کی سزا دی گئی، جوان کے جرائم پر غور کریں تو بہت معمولی سزا ہے،ایک ہلکی سزا۔ ان کا یہ گھناؤنا کام اپریل 1992 میں دریائے ساوا کے قریب ہوا، جہاں بہت سے بوسنیائی مسلمان اور کروشیائی مردوں کو پکڑ لیا گیا، قتل کیا گیا یا ظالمانہ حراستی کیمپوں میں بھیج دیا گیا۔
یہ حقیقت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ سریبرینیکا میں ہزاروں نسل کشیوں کے درمیان صرف ایک علامتی تعداد کو انصاف کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مزید برآں، سنائی گئی سزائیں جرائم کے مقابلے میں نسبتاً نرم تھیں۔
مجرموں کے لیے سزائے موت کا نہ ہونا بین الاقوامی عدالتی اداروں کی نمایاں خامی تھی۔ گھریلو سطح پر، بوسنیا کی عدالتوں نے بھی مجرموں کے خلاف مقدمہ چلایا ہے لیکن وہ ان میں سے اکثریت کو انصاف کے کٹہرے میں نہ لایا جاسکا اور بہت کم مجرموں پر مقدمہ چلایا جا سکا۔
اس کے علاوہ، بس اور ٹرک کمپنیوں کی ذمہ داری کا کیا ہوگا جنہوں نے بوسنیائی باشندوں کو ان کی موت کو مقام تک پہنچایا؟ بس ڈرائیوروں کی ذمہ داری کہاں ہے؟ جلادوں کے لیے کھانا تیار کرنے والے باورچیوں کی ذمہ داری کے بارے میں کیا خیال ہے؟
دوسرے لفظوں میں، براہ راست پھانسی دینے والوں کے علاوہ، دوسرے شریک کاروںکا ایک مجموعہ ہے جنہوں نے نسل کشی کے عمل میں سہولت فراہم کی جنہیں نسل کشی میں اپنے کردار کے لیے جوابدہی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
اس کے علاوہ، سریبرینیکا اب بھی ایک کھلا زخم کیوں ہے اس کی بڑی وجہ اس عمل کا کھلا انکار ہے۔
انکار بہت سی شکلیں اختیار کرتا ہے، حقائق کو صریحاً مسترد کرنے سے لے کر نسل کشی کی اصطلاح کے استعمال سے بچنے کے لیے قتل عام جیسے خوشامد ی الفاظ کے استعمال تک۔ ایک اور بار بار تردید جو کی جاتی ہے وہ 1992-1995 کی بوسنیائی نسل کشی کی لوکلائزیشن ہےیعنی یہ مقام عمل تھا جو جولائی 1995 میں ملک بھر میں صرف سریبرینیکا میں کیا گیا تھا۔یہ پریشان کن ہے کہ انکار نہ صرف ریپبلیکا سرپسکا کے موجودہ حکام بلکہ ان کی مبینہ طور پر اعتدال پسند اپوزیشن کی طرف سے بھی کیا جاتا ہے۔
غیر سرکاری سطح پر بھی صورتحال کچھ بہتر نہیں ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے، مغربی این جی اوز نے "مفاہمت” اور "مکالمہ” کو فروغ دینے کے لیے مختلف اقدامات کو آگے بڑھایا ہے۔
کئی مقامی این جی اوز نے بینڈ ویگن میں شمولیت اختیار کی اور فنڈنگ کے تازہ ترین رجحانات کو برقرار رکھنے کے لیے "مکالمہ” کو فروغ دیا۔ لیکن، نسل کشی کے بارے میں حقائق پر بات کرنے کی نہ تو ضرورت ہے اور نہ ہی جواز محسوس کیا گیا۔
کسی بھی مکالمے کا نقطہ آغاز 1992-1995 میں ہونے والے حقائق کو تسلیم کرنا ہے۔
مزید برآں، مخصوص "مفاہمت” کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ نسل کشی دو فریقوں کے درمیان کوئی جھگڑا نہیں تھا جس پر کاغذی کارروائی کی ضرورت تھی۔ لہٰذا، مغربی این جی اوز کو چاہیے کہ وہ نسل کشی سے انکار کرنے والے افراد، اداروں اور تنظیموں کو نظر انداز کریں نہ کہ مشکوک منصوبوں کی وکالت اور مالی معاونت کریں۔
نسل کشی سے انکار باقی رہے گا اور ایک دہائی پہلے کے مقابلے میں یہ اب زیادہ وسیع ہے۔ نسل کشی سے انکار کرنے والوں کو الگ تھلگ کرنے کا راستہ اپنا کر ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔
بوسنیائی نسل کشی اور سریبرینیکا کی یادداشت اور حقائق کو محفوظ رکھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کی مسلسل بین الاقوامی یادگاری پر کام جاری رکھا جائے۔