اکیسویں صدی میں جہاں ہندستان عالمی اطلاعات، خلا، جوہری توانائی نیز تکنیکی شعبے میں ایک عظیم قوت بن کر ابھرا ہے، وہیں دوسری جانب سرزمین ہند پر سماجی دشمنی کے پودے زہریلے جنگل جھاڑ کی مانند پنپ رہے ہیں۔ ایک طرف جہاں تکنیکی شعبے میں ہندستان ترقی یافتہ ملکوں سے مقابلہ کرنے کا جتن کر رہا ہے تو وہیں دوسری طرف فرقہ واریت کے زیر اثر وطن عزیز کی قدیم مشترکہ تہذیب و ثقافت کا دم گھٹتا نظر آ رہا ہے۔ اس ملک کی اساس سیکولر ازم پر رکھی گئی تھی لیکن موجودہ حالات میں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ فرقہ واریت کی مسلسل ضرب کاری نے سیکولر ازم کو کافی کمزور کر دیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ فطری اصول ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہم ملک میں سیکولر ازم کو جس قدر فروغ دیں گے فرقہ واریت کے لئے اتنی ہی کم جگہ باقی بچے گی اور ٹھیک اسی طرح فرقہ واریت کو جس قدر فروغ دیا جائے گا سیکولر ازم کے لئے ملک میں اتنی ہی کم جگہ بچے گی۔
ملک میں جہاں ایک سمت جینیاتی تبدیلی یا جینیاتی اختلاط کی کوششیں جاری ہیں تو وہیں کچھ لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ دنیا کے دیگر لوگ ایک طرف خلا میں اڑان بھرنے اور ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی جستجو میں ہیں، جہاں سے ہندستان ہی کیا، ساری دنیا ہی یکساں نظر آتی ہے تو وہیں ہمارے جمہوری اور سیکولر وطن عزیز میں دھرم اور مذہب کے نام پر لوگوں کو باہم دست و گریباں دیکھ کر عالمی برادری ہمارا مذاق اڑا رہی ہے۔ یہ سب اس صورت میں ہے جبکہ ملک میں دیگر بہت سے اہم سنجیدہ مسائل پہلے ہی سے موجود ہیں۔ مثال کے طور پر غربت، بے روزگاری، شرح ناخواندگی اور بیماری جیسے مسائل جن کے خاتمے کے لئے سنجیدہ اور فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس کے باوجود ہم اپنی تمام تر توانائی، وسائل اور وقت فرقہ واریت کے زیر اثر ہونے والے تشدد کے خوف کے ازالے میں صرف کر رہے ہیں۔
عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے اور یہ درست بھی ہے کہ برطانوی سامراج نے ملک میں فرقہ واریت کی تخم ریزی کی اور نہایت عیاری سے ہندوستان کے مختلف سماجوں کو مذہب، طبقات اور فرقوں میں تقسیم کر دیا کیوں کہ اس کا مقصد ہندوستان پر اپنے راج کی توسیع کرنا تھا۔ انگریزوں کی اس سازش کی انتہا تقسیم ہند جیسے سانحے پر آ کر ہوئی۔ اس طرح ملک کی قدیم مشترکہ تہذیب کے تانے بانے کو برطانوی سامراج نے فرقہ واریت کے اثر سے کمزور کر دیا اور اس طرح فرقہ واریت کی اصطلاح معروف ہوئی۔
اس ملک سے انگریزوں کو گئے ہوئے سات دہائیاں گزر چکی ہیں اور اتنا ہی وقت اس ملک کو آزاد ہوئے ہوا ہے لیکن فرقہ واریت بجائے کم ہونے کے مزید بڑھی ہے۔ آئے دن اخبارات کے صفحات فرقہ واریت پر مبنی واقعات سے سیاہ نظر آتے ہیں۔ نیوز چینلز پر ہو رہی زیادہ تر بحثیں فرقہ واریت پر مبنی ہوتی ہیں اور اب تو ملک میں برطانوی سامراج بھی نہیں جسے مورد الزام ٹھہرا یا جا سکے۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے 25 نومبر 1949 کو کانسٹیٹیونٹ اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”آزادی بلا شبہ خوشی کی بات ہے اور آزادی ملنے سے اب ہم نے کسی بھی غلط کام کے لئے انگریزوں کو مورد الزام ٹھہرانے کا بہانہ کھو دیا ہے۔ اگر اس کے بعد چیزیں غلط ہوتی ہیں تو اس کے لئے ہمارے علاوہ اور کوئی ذمہ دار نہیں ہے۔“
مشہور مارکسی مصنف رجنی پام دت کے مطابق فرقہ واریت کے محرکات کے پس پردہ معاشی اور سماجی تفاوت رہے ہیں۔ جب مسلم طبقے کے جدید تعلیم یافتہ متوسط کلاس اور سرمایہ دار طبقے نے دیکھا کہ برطانوی عہد سے ہی مسلمان اپنی روایتی ترجیحات اور خوب سے خوب تر رہنے کی فکر کھوتے جا رہے ہیں اور ہندو سرکاری نوکریوں پر بھی حق جماتے جا رہے ہیں، تو انہیں اپنے عوامی طبقے کی حمایت کا خیال آیا۔ انہوں نے ہی اس جدوجہد کو غلط رخ دیا اور اسے فرقہ واریت کا جامہ پہنا کر ہندو مسلم تصادم کا روپ دیا۔
یہ اور بات ہے کہ انہیں اپنی جاگیردارانہ فطرت کو ترک کر کے ترقی کے مرکزی دھارے میں جلد ہی شامل ہوجانا چاہیے تھا۔ ابھی بھی بہت دیر نہیں ہوئی ہے۔ مسلمانوں کے متوسط اور سرمایہ دار طبقے کو اپنی کمیونٹی کو الجھن اور ابہام میں ڈالنے کے بجائے انہیں تعلیم، ہنر اور مقصدی زندگی کی جانب گامزن کرنا چاہیے تاکہ وہ ملک میں مروجہ یکساں اور حاصل شدہ اختیارات کا استعمال کرسکیں۔
ملک میں آزادی کے بعد جو معاشی ترقی ہوئی، اس سے علاقائی اقتصادی عدم مساوات کا جنم ہوا۔ اس نے بھی جدید فرقہ واریت کو ابھارا جس نے فرقہ ورانہ تشدد اور تصادم کی شکل اختیار کرلی اور جو خالصتان، گورکھا لینڈ، ناگالینڈ یا منی پور میں علیحدگی پسند تحریکات کی صورت میں اجاگر ہوا۔ اس سے عوام میں سخت غلط فہمیاں پیدا ہوئیں کہ وہ گن پوائنٹ پر زیادہ سے زیادہ دولت جمع کر سکتے ہیں نیز بغیر پڑھائی لکھائی کے بھی بہترین زندگی جی سکتے ہیں۔
مقامی دانشوروں نے اسے خالصتاً معاشی مسئلہ نہ تصور کرتے ہوئے اس میں مزید بھاشا اور ثقافت سے وابستہ مسائل شامل کر کے مقامی جذبات کو بھڑکایا جس نے آگ میں گھی کا کام کیا۔ عالم یہ ہے کہ آج دہشت پسند کسی کی بھی نہیں سنتے ہیں، مقامی دانشور تو آگ لگا کر اپنے آرام دہ کمروں میں بند ہو گئے مگر نوجوان اپنے جیسے ہی جوانوں (پولیس والوں ) سے متصادم ہیں اور خون کی ہولیاں کھیل رہے ہیں۔
آزادی کے بعد ترقی کے تجربات کی بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ جن ریاستوں میں فرقہ واریت کا ناسور پھیلتا گیا وہاں کی ترقی کی رفتار اسی اعتبار سے تھمتی چلی گئی۔ موجودہ دور میں جو ملک مذہبی بنیاد پر عمل پیرا ہیں ان کے مقابلے میں مذہب بیزار ملکوں نے زیادہ ترقی کی ہے۔
آئین ہند کی شق 51 (ک) کے مطابق ملک کے سبھی شہریوں میں لسانی، مذہبی، طبقاتی اور علاقائی یگانگت نیز ہم آہنگی کو ترویج دینا چاہیے۔ دستور کے مطابق ہر شہری کا یہ فریضہ ہے۔ وہ یہ عمل ریاست یا حکومت کے متھے منڈھ کر اپنے اس فریضے کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ جذباتی یگانگت و اتحاد ہی کسی بھی ملک میں قومی اسپرٹ یا وقار کی ترسیل کرتی ہے۔ ایسی ہی یگانگت کے بعد تمام طرح کی تفریق خود بخود ہی مٹ جائے گی۔ ایسی ہی یگانگت کے سامنے نام نہاد مذہبی افراد کے دلائل بے معنی ثابت ہو جاتے ہیں۔ جذباتی یگانگت سے مقصود ہے باشندوں اور شہریوں کے باہمی سکھ دکھ میں شامل ہونا۔
یہ بھی سچ ہے کہ جہاں جہاں فرقہ ورانہ فسادات رونما ہوئے اور ان کی زد میں انسانیت کے ساتھ ساتھ بے شمار املاک بھی تباہ ہوئی، وہیں جذباتی یگانگت و اتحاد کے مناظر بھی رونما ہوئے جن سے ثابت ہوا کہ قومیت ابھی بھی زندہ ہے، اگرچہ ان فسادات کی آڑ میں کچھ لوگوں نے اپنی سیاسی روٹیاں بھی سینکیں اور اپنے مقاصد بھی حاصل کیے۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ جو جو افراد ان فسادات سے متاثر ہوئے اور جن جن علاقوں میں اس آگ نے گھر اور ارمان جلائے، ان کا مداوا کیسے ممکن ہے؟
قصہ مختصر یہ کہ عوام ہوش مند ہو گئے ہیں نیز فرقہ واریت کی روٹی سینکنے والے مذہبی اور سیاسی نیتاؤں کی سازشیں اور کوششیں ان کی سمجھ میں آنے لگی ہیں۔ البتہ ابھی ان کی طاقتوں سے خوف زدہ ہیں مگر وہ دن دور نہیں جب خود غرض لیڈران اور ان جیسے دیگر عناصر کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ عوام ان سے چن چن کر حساب چکتا کریں گے۔ اس کے بعد وہ باہمی دوستی اور ہم آہنگی سے رہ کر اپنی پرسکون اور خوش حال زندگی بسر کرنے کے ساتھ ساتھ ایک خوب صورت اور پرامن سماج کی تعمیر کریں گے جس کا مقصد ہندستان کو ہر پہلو سے دنیا کے مضبوط ترین ملکوں کی فہرست میں شامل کرنا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ یہ انقلاب کب آئے گا؟ ابھی ارض وطن کو اور کتنوں کا لہو چاہیے؟ اور کتنی آہوں سے اس کا کلیجہ ٹھنڈا ہو گا؟ کیا سیاسی طور پر شکست دے کر ہی فرقہ واریت کو ختم کیا جا سکتا ہے؟ مشہور مؤرخ بپن چندر اپنی کتاب ”کمیونلزم“ میں لکھتے ہیں کہ ہمیشہ سیکولر جماعتیں بی جے پی کو الیکشن میں شکست دے کر مطمئن ہو جاتی ہیں کہ بی جے پی کی سیاسی شکست کے ساتھ ہی فرقہ واریت بھی ختم ہو گئی جیسا کہ 2004 کے الیکشن میں ہوا اور یہ تمام سیکولر سیاسی جماعتیں یہ بھول جاتی ہیں کہ فرقہ واریت محض سیاسی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک نظریاتی مسئلہ ہے اور نظریاتی مسئلہ الیکشن کی فتح و شکست سے ماورا ہے۔ اسی لئے الیکشن میں شکست دینے کے باوجود فرقہ واریت پر نظریاتی سطح پر مسلسل مقابل کرنے کی ضرورت ہے۔
شفقنا اردو
نوٹ: شفقنا کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں