Top Posts
افغانستان کا دعویٰ ’غلط‘، چمن پر فائرنگ کا...
یوٹیوب نے غزہ میں اسرائیلی جنگی جرائم کا...
وفاقی کابینہ سے ستائیس ویں آئینی ترمیم کا...
پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی معاہدے میں...
جنوبی افریقا نے 3 ون ڈے میچز پر...
فلپائن میں ہولناک سمندری طوفان کالمیگی سے 140...
پیپلزپارٹی نے ستائیس ویں آئینی ترمیم کی تجویز...
قازقستان بھی معاہدہ ابراہیمی کا حصہ بن گیا...
مسلمان مئیرز کی فتح: انتخابات طاقت اور اقدار...
امریکی انتخابی نتائج 2025: پورے امریکہ بھرمیں تاریخی...
  • Turkish
  • Russian
  • Spanish
  • Persian
  • Pakistan
  • Lebanon
  • Iraq
  • India
  • Bahrain
  • French
  • English
  • Arabic
  • Afghanistan
  • Azerbaijan
شفقنا اردو | بین الاقوامی شیعہ خبر رساں ادارہ اور تجزیاتی مرکز
اردو
  • صفحہ اول
  • تازہ ترین
  • آپ کی خبر
  • بلاگ
  • پاکستان
  • تصویری منظر نامہ
  • دلچسپ و عجیب
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • صحت وتعلیم
  • عالمی منظر نامہ
  • فیچرز و تجزیئے
  • کھیل و کھلاڑی
  • وڈیوز
  • رابطہ

فرقہ واریت:ترقی پذیر ہندوستان کا ناسور!

by TAK 16:31 | منگل اپریل 2، 2024
16:31 | منگل اپریل 2، 2024 17 views
17
یہ تحریر ہم سب اردو مین شائع ہوئی
اکیسویں صدی میں جہاں ہندستان عالمی اطلاعات، خلا، جوہری توانائی نیز تکنیکی شعبے میں ایک عظیم قوت بن کر ابھرا ہے، وہیں دوسری جانب سرزمین ہند پر سماجی دشمنی کے پودے زہریلے جنگل جھاڑ کی مانند پنپ رہے ہیں۔ ایک طرف جہاں تکنیکی شعبے میں ہندستان ترقی یافتہ ملکوں سے مقابلہ کرنے کا جتن کر رہا ہے تو وہیں دوسری طرف فرقہ واریت کے زیر اثر وطن عزیز کی قدیم مشترکہ تہذیب و ثقافت کا دم گھٹتا نظر آ رہا ہے۔ اس ملک کی اساس سیکولر ازم پر رکھی گئی تھی لیکن موجودہ حالات میں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ فرقہ واریت کی مسلسل ضرب کاری نے سیکولر ازم کو کافی کمزور کر دیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ فطری اصول ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہم ملک میں سیکولر ازم کو جس قدر فروغ دیں گے فرقہ واریت کے لئے اتنی ہی کم جگہ باقی بچے گی اور ٹھیک اسی طرح فرقہ واریت کو جس قدر فروغ دیا جائے گا سیکولر ازم کے لئے ملک میں اتنی ہی کم جگہ بچے گی۔
ملک میں جہاں ایک سمت جینیاتی تبدیلی یا جینیاتی اختلاط کی کوششیں جاری ہیں تو وہیں کچھ لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ دنیا کے دیگر لوگ ایک طرف خلا میں اڑان بھرنے اور ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی جستجو میں ہیں، جہاں سے ہندستان ہی کیا، ساری دنیا ہی یکساں نظر آتی ہے تو وہیں ہمارے جمہوری اور سیکولر وطن عزیز میں دھرم اور مذہب کے نام پر لوگوں کو باہم دست و گریباں دیکھ کر عالمی برادری ہمارا مذاق اڑا رہی ہے۔ یہ سب اس صورت میں ہے جبکہ ملک میں دیگر بہت سے اہم سنجیدہ مسائل پہلے ہی سے موجود ہیں۔ مثال کے طور پر غربت، بے روزگاری، شرح ناخواندگی اور بیماری جیسے مسائل جن کے خاتمے کے لئے سنجیدہ اور فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس کے باوجود ہم اپنی تمام تر توانائی، وسائل اور وقت فرقہ واریت کے زیر اثر ہونے والے تشدد کے خوف کے ازالے میں صرف کر رہے ہیں۔
عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے اور یہ درست بھی ہے کہ برطانوی سامراج نے ملک میں فرقہ واریت کی تخم ریزی کی اور نہایت عیاری سے ہندوستان کے مختلف سماجوں کو مذہب، طبقات اور فرقوں میں تقسیم کر دیا کیوں کہ اس کا مقصد ہندوستان پر اپنے راج کی توسیع کرنا تھا۔ انگریزوں کی اس سازش کی انتہا تقسیم ہند جیسے سانحے پر آ کر ہوئی۔ اس طرح ملک کی قدیم مشترکہ تہذیب کے تانے بانے کو برطانوی سامراج نے فرقہ واریت کے اثر سے کمزور کر دیا اور اس طرح فرقہ واریت کی اصطلاح معروف ہوئی۔
اس ملک سے انگریزوں کو گئے ہوئے سات دہائیاں گزر چکی ہیں اور اتنا ہی وقت اس ملک کو آزاد ہوئے ہوا ہے لیکن فرقہ واریت بجائے کم ہونے کے مزید بڑھی ہے۔ آئے دن اخبارات کے صفحات فرقہ واریت پر مبنی واقعات سے سیاہ نظر آتے ہیں۔ نیوز چینلز پر ہو رہی زیادہ تر بحثیں فرقہ واریت پر مبنی ہوتی ہیں اور اب تو ملک میں برطانوی سامراج بھی نہیں جسے مورد الزام ٹھہرا یا جا سکے۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے 25 نومبر 1949 کو کانسٹیٹیونٹ اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”آزادی بلا شبہ خوشی کی بات ہے اور آزادی ملنے سے اب ہم نے کسی بھی غلط کام کے لئے انگریزوں کو مورد الزام ٹھہرانے کا بہانہ کھو دیا ہے۔ اگر اس کے بعد چیزیں غلط ہوتی ہیں تو اس کے لئے ہمارے علاوہ اور کوئی ذمہ دار نہیں ہے۔“
مشہور مارکسی مصنف رجنی پام دت کے مطابق فرقہ واریت کے محرکات کے پس پردہ معاشی اور سماجی تفاوت رہے ہیں۔ جب مسلم طبقے کے جدید تعلیم یافتہ متوسط کلاس اور سرمایہ دار طبقے نے دیکھا کہ برطانوی عہد سے ہی مسلمان اپنی روایتی ترجیحات اور خوب سے خوب تر رہنے کی فکر کھوتے جا رہے ہیں اور ہندو سرکاری نوکریوں پر بھی حق جماتے جا رہے ہیں، تو انہیں اپنے عوامی طبقے کی حمایت کا خیال آیا۔ انہوں نے ہی اس جدوجہد کو غلط رخ دیا اور اسے فرقہ واریت کا جامہ پہنا کر ہندو مسلم تصادم کا روپ دیا۔
یہ اور بات ہے کہ انہیں اپنی جاگیردارانہ فطرت کو ترک کر کے ترقی کے مرکزی دھارے میں جلد ہی شامل ہوجانا چاہیے تھا۔ ابھی بھی بہت دیر نہیں ہوئی ہے۔ مسلمانوں کے متوسط اور سرمایہ دار طبقے کو اپنی کمیونٹی کو الجھن اور ابہام میں ڈالنے کے بجائے انہیں تعلیم، ہنر اور مقصدی زندگی کی جانب گامزن کرنا چاہیے تاکہ وہ ملک میں مروجہ یکساں اور حاصل شدہ اختیارات کا استعمال کرسکیں۔
ملک میں آزادی کے بعد جو معاشی ترقی ہوئی، اس سے علاقائی اقتصادی عدم مساوات کا جنم ہوا۔ اس نے بھی جدید فرقہ واریت کو ابھارا جس نے فرقہ ورانہ تشدد اور تصادم کی شکل اختیار کرلی اور جو خالصتان، گورکھا لینڈ، ناگالینڈ یا منی پور میں علیحدگی پسند تحریکات کی صورت میں اجاگر ہوا۔ اس سے عوام میں سخت غلط فہمیاں پیدا ہوئیں کہ وہ گن پوائنٹ پر زیادہ سے زیادہ دولت جمع کر سکتے ہیں نیز بغیر پڑھائی لکھائی کے بھی بہترین زندگی جی سکتے ہیں۔
مقامی دانشوروں نے اسے خالصتاً معاشی مسئلہ نہ تصور کرتے ہوئے اس میں مزید بھاشا اور ثقافت سے وابستہ مسائل شامل کر کے مقامی جذبات کو بھڑکایا جس نے آگ میں گھی کا کام کیا۔ عالم یہ ہے کہ آج دہشت پسند کسی کی بھی نہیں سنتے ہیں، مقامی دانشور تو آگ لگا کر اپنے آرام دہ کمروں میں بند ہو گئے مگر نوجوان اپنے جیسے ہی جوانوں (پولیس والوں ) سے متصادم ہیں اور خون کی ہولیاں کھیل رہے ہیں۔
آزادی کے بعد ترقی کے تجربات کی بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ جن ریاستوں میں فرقہ واریت کا ناسور پھیلتا گیا وہاں کی ترقی کی رفتار اسی اعتبار سے تھمتی چلی گئی۔ موجودہ دور میں جو ملک مذہبی بنیاد پر عمل پیرا ہیں ان کے مقابلے میں مذہب بیزار ملکوں نے زیادہ ترقی کی ہے۔
آئین ہند کی شق 51 (ک) کے مطابق ملک کے سبھی شہریوں میں لسانی، مذہبی، طبقاتی اور علاقائی یگانگت نیز ہم آہنگی کو ترویج دینا چاہیے۔ دستور کے مطابق ہر شہری کا یہ فریضہ ہے۔ وہ یہ عمل ریاست یا حکومت کے متھے منڈھ کر اپنے اس فریضے کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ جذباتی یگانگت و اتحاد ہی کسی بھی ملک میں قومی اسپرٹ یا وقار کی ترسیل کرتی ہے۔ ایسی ہی یگانگت کے بعد تمام طرح کی تفریق خود بخود ہی مٹ جائے گی۔ ایسی ہی یگانگت کے سامنے نام نہاد مذہبی افراد کے دلائل بے معنی ثابت ہو جاتے ہیں۔ جذباتی یگانگت سے مقصود ہے باشندوں اور شہریوں کے باہمی سکھ دکھ میں شامل ہونا۔
یہ بھی سچ ہے کہ جہاں جہاں فرقہ ورانہ فسادات رونما ہوئے اور ان کی زد میں انسانیت کے ساتھ ساتھ بے شمار املاک بھی تباہ ہوئی، وہیں جذباتی یگانگت و اتحاد کے مناظر بھی رونما ہوئے جن سے ثابت ہوا کہ قومیت ابھی بھی زندہ ہے، اگرچہ ان فسادات کی آڑ میں کچھ لوگوں نے اپنی سیاسی روٹیاں بھی سینکیں اور اپنے مقاصد بھی حاصل کیے۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ جو جو افراد ان فسادات سے متاثر ہوئے اور جن جن علاقوں میں اس آگ نے گھر اور ارمان جلائے، ان کا مداوا کیسے ممکن ہے؟
قصہ مختصر یہ کہ عوام ہوش مند ہو گئے ہیں نیز فرقہ واریت کی روٹی سینکنے والے مذہبی اور سیاسی نیتاؤں کی سازشیں اور کوششیں ان کی سمجھ میں آنے لگی ہیں۔ البتہ ابھی ان کی طاقتوں سے خوف زدہ ہیں مگر وہ دن دور نہیں جب خود غرض لیڈران اور ان جیسے دیگر عناصر کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ عوام ان سے چن چن کر حساب چکتا کریں گے۔ اس کے بعد وہ باہمی دوستی اور ہم آہنگی سے رہ کر اپنی پرسکون اور خوش حال زندگی بسر کرنے کے ساتھ ساتھ ایک خوب صورت اور پرامن سماج کی تعمیر کریں گے جس کا مقصد ہندستان کو ہر پہلو سے دنیا کے مضبوط ترین ملکوں کی فہرست میں شامل کرنا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ یہ انقلاب کب آئے گا؟ ابھی ارض وطن کو اور کتنوں کا لہو چاہیے؟ اور کتنی آہوں سے اس کا کلیجہ ٹھنڈا ہو گا؟ کیا سیاسی طور پر شکست دے کر ہی فرقہ واریت کو ختم کیا جا سکتا ہے؟ مشہور مؤرخ بپن چندر اپنی کتاب ”کمیونلزم“ میں لکھتے ہیں کہ ہمیشہ سیکولر جماعتیں بی جے پی کو الیکشن میں شکست دے کر مطمئن ہو جاتی ہیں کہ بی جے پی کی سیاسی شکست کے ساتھ ہی فرقہ واریت بھی ختم ہو گئی جیسا کہ 2004 کے الیکشن میں ہوا اور یہ تمام سیکولر سیاسی جماعتیں یہ بھول جاتی ہیں کہ فرقہ واریت محض سیاسی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک نظریاتی مسئلہ ہے اور نظریاتی مسئلہ الیکشن کی فتح و شکست سے ماورا ہے۔ اسی لئے الیکشن میں شکست دینے کے باوجود فرقہ واریت پر نظریاتی سطح پر مسلسل مقابل کرنے کی ضرورت ہے۔
شفقنا اردو
نوٹ: شفقنا کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں
برطانوی سامراجہندستان اور عالمی اطلاعا
0 FacebookTwitterLinkedinWhatsappTelegramViberEmail
گزشتہ پوسٹ
والدین کا ویپنگ کرنا بچوں کے لیے خطرناک قرار
اگلی پوسٹ
مریم نواز ایک حادثاتی لیڈر اور ہمارا مقدر

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

پاکستان دوبارہ کب آزاد ہوگا: شفقنا خصوصی تحریر

18:01 | جمعہ اگست 14، 2020

تبصرہ کریں Cancel Reply

میرا نام، ای میل اور ویب سائٹ مستقبل میں تبصروں کے لئے محفوظ کیجئے.

تازہ ترین

  • افغانستان کا دعویٰ ’غلط‘، چمن پر فائرنگ کا ذمہ دارانہ جواب دیا: پاکستان

  • یوٹیوب نے غزہ میں اسرائیلی جنگی جرائم کا احاطہ کرتی سیکڑوں ویڈیوز خاموشی سے حذف کردیں

  • وفاقی کابینہ سے ستائیس ویں آئینی ترمیم کا مسودہ آج منظور ہونےکا امکان ہے

  • پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی معاہدے میں میں ایران کو بھی شامل کیا جانا چاہیے: سپیکر ایران پارلیمنٹ

  • جنوبی افریقا نے 3 ون ڈے میچز پر مشتمل سیریز کے دوسرے میچ میں پاکستان کو باآسانی 8 وکٹوں سے شکست دے کر سیریز 1-1 سے برابر کر دی

  • فلپائن میں ہولناک سمندری طوفان کالمیگی سے 140 افراد جاں بحق

  • پیپلزپارٹی نے ستائیس ویں آئینی ترمیم کی تجویز کے ایک کے سوا تمام نکات مسترد کردیے

  • قازقستان بھی معاہدہ ابراہیمی کا حصہ بن گیا ہے: ڈونلڈ ٹرمپ

  • مسلمان مئیرز کی فتح: انتخابات طاقت اور اقدار میں تبدیلی کا اشارہ/احمد مغل

  • امریکی انتخابی نتائج 2025: پورے امریکہ بھرمیں تاریخی رات سے اہم نکات/نعیم افضل

  • گوگل میپس میں 4 نئے فیچرز متعارف

  • آرمی چیف کی مدت ملازمت پانچ سال ہے، توسیع کے لیے نوٹی فیکیشن کی ضروری نہیں: حکومت

  • مریم نواز کی حکومت کے متنازع منصوبے، ’مقبولیت کا گراف نیچے‘؟/رائے شاہ نواز

  • پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان استنبول میں مذاکرات کا تیسرا دور شروع ہوگیا

  • زہران ممدانی کی جیت: جمہوریت کے لیے امید کی کرن/سیدمجاہد علی

  • الزامات، بداعتمادی اور آن لائن پروپیگینڈا: استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے مذاکرات سے کیا توقعات ہیں؟

  • 27ویں ترمیم: کیا حکومت کے پاس پارلیمان میں مطلوبہ نمبرز پورے ہیں؟

  • ممدانی کی جیت نے یورپ کی لیفٹسٹ پارٹیوں کو متحرک کر دیا

  • انٹرنیشنل کرکٹ کونسل ممبرز پاک بھارت بورڈز میں سیز فائر کے خواہاں

  • کرک آپریشن: ٹی ٹی پی کا انتہائی مطلوب دہشت گرد کمانڈر کمانڈر نثار حکیم ہلاک

مقبول ترین

  • چھپکلی کی جلد سے متاثرہ بھوک لگانے والا کیپسول

  • مہاتیر محمد نے اپنا استعفیٰ پیش کردیا

  • ایک ارب 70 کروڑ ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی معطل کرنے کے معاہدے پر دستخط

  • اسلام آباد: میجر لاریب قتل کیس میں ایک مجرم کو سزائے موت، دوسرے کو عمر قید

  • میں نے جمہوریت کی مضبوطی کے لیے کام کیا: جوبائیڈن کا قوم سے خطاب

  • کیا ہندوستان کی آنے والی نسلیں مسلم مخالف نفرت میں اس کی زوال پزیری کو معاف کر دیں گی؟/شاہد عالم

  • مکمل لکڑی سے تراشا گیا کارکا ماڈل 2 لاکھ ڈالر میں نیلام

  • دی نیشن رپورٹ/پاکستانی جیلوں میں قید خواتین : اگرچہ ان کی چیخیں دب گئی ہیں مگر ان کے دکھ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا

  • عورتوں سے باتیں کرنا

  • سی سی پی او لاہور نے آئی جی کے ‘اختیارات’ کو چیلنج کرکے نیا ‘پنڈورا بکس’ کھول دیا

@2021 - All Right Reserved. Designed


Back To Top
شفقنا اردو | بین الاقوامی شیعہ خبر رساں ادارہ اور تجزیاتی مرکز
  • صفحہ اول
  • تازہ ترین
  • آپ کی خبر
  • بلاگ
  • پاکستان
  • تصویری منظر نامہ
  • دلچسپ و عجیب
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • صحت وتعلیم
  • عالمی منظر نامہ
  • فیچرز و تجزیئے
  • کھیل و کھلاڑی
  • وڈیوز
  • رابطہ