نواز شریف کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے، اس میں اب کسی کو کوئی شک یا ابہام نہیں رہ گیا۔ جس انداز میں نواز شریف کی ریڈ کارپٹ پر شاہانہ انداز میں واپسی ہوئی کیسز ختم ہوئے، عالمی میڈیا نے نواز شریف کو الیکشن سے پہلے ہی وزیراعظم تک قرار دے دیا، پھر ایسا کیا ہو گیا کہ ایک ہفتے کے دوران ہی کایا پلٹ گئی۔ نواز شریف مقتدروں کی ذاتی لڑائی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اگر نواز شریف کو وزیراعظم نہ بنانا ہوتا تو ان کی الیکشن سے قبل اس انداز میں ہرگز واپسی ممکن نہ ہوتی۔
نواز شریف عنقریب بڑا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ رانا ثنا اللہ، جاوید لطیف، خرم دستگیر، خواجہ سعد رفیق کے بیانات ان لوگوں کی شکست کا عمل نہیں بلکہ یہ ایک بیانیہ ہے جو مسلم لیگ نون کے ہارے ہوئے اور ناراض لوگ بنا رہے ہیں ویسے تعجب کی بات ہے کہ یہ چاروں لوگ شہباز کابینہ کا حصہ تھے اہم وزارتیں بھی تھی لیکن پھر بھی یہ اپنی سیٹیں نہیں نکال سکے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہے کہ ان چاروں لوگوں نے الیکشن مومنٹم کو یکسر نظر انداز کیا
ایک مشہور ڈائیلاگ ان دنوں زیرلب گردش میں تھا کہ ساڈی گل ہو گئی۔ یہ لوگ بھی اسی غلط فہمی میں مارے گئے۔ ان کو لگتا تھا کہ سب کچھ ہمارے حق میں اچھا چل رہا ہے ہمیں لوگوں کے پاس ووٹ مانگنے جانے، اپنے ووٹر سپورٹر کو متحرک کرنے یا الیکشن کمپین چلانے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ ان چاروں سابق وزرا کے مقابلے میں جو لوگ الیکشن جیتے ہیں ان کو اپنی گلی سے باہر بھی کوئی شخص جانتا نہیں ہے۔ عمران خان کا بیانیہ اتنا مقبول نہیں تھا کہ وہ کسی بھی انجان آدمی کو ٹکٹ دیتے اور وہ جیت جاتا جبکہ ان کے مد مقابل ایک مضبوط سیاسی امیدوار بھی تھا خیر اب یہ لوگ ہار گئے ہیں۔
ان کا یہ بھی غصہ جائز ہے۔ نواز شریف کو ایک طرف تو بیٹی کے وزیر اعلی پنجاب بننے پر خوشی ہوئی ہے لیکن جو وعدے ان کے ساتھ کیے گئے تھے وہ وفا نہیں ہو سکے۔ اس کا نواز شریف کو رنج ہے۔ نواز شریف کے کچھ مطالبات تو منظور ہو چکے ہیں اور کچھ مطالبات منظور نہ ہونے یا ان پر عمل درآمد نہ ہونے پر نواز شریف اسٹیبلشمنٹ سے خوش نہیں ہے۔ دوسری طرف مولانا فضل الرحمن بھی اسٹیبلشمنٹ سے ناخوش ہے کیونکہ الیکشن سے قبل مولانا فضل الرحمن کو توقع تھی کہ خیبر پختون خواہ میں ان کی جماعت با آسانی حکومت بنا لے گی لیکن الیکشن نتائج مولانا فضل الرحمن کے لیے بھی حیران کن تھے اس لیے انہوں نے جذبات سے بھرپور الیکشن کے دو دن بعد پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے واضح کہا کہ اگر خیبر پختون خواہ میں نو مئی کے واقعات میں ملوث لوگ حکومت بنا رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ فوج کا نو مئی کا بیانیہ دفن ہو چکا ہے۔
اس وقت نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن ایک ہی پیج پر ہیں ان دونوں کو کنٹرول کرنا اب اسٹیبلشمنٹ کے بس میں بھی نہیں ہے۔ فی الحال یہ دونوں لیڈران کسی وجہ سے خاموش ہیں لیکن یہ خاموشی زیادہ لمبی نہیں ہو سکتی۔ ان دونوں لیڈران کے اندر ایک لاوا ابل رہا ہے جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے جبکہ عمران خان تاحال اسٹیبلشمنٹ کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔ بظاہر نظر آ رہا ہے آنے والے چند دنوں میں ملک میں پھر نئی تحریکوں کا آغاز ہونے جا رہا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کا بڑا امتحان بھی سر پر ان پہنچا ہے۔
اگر اسٹیبلشمنٹ نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو پھر عمران خان کی کوئی اہمیت نہیں رہے گی۔ اس وقت تحریک انصاف جن لوگوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن چکی ہے یہی لوگ عمران خان کی سیاست ختم کرنے کے لیے کافی ہیں کیونکہ یہ سب لوگ ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ عمران خان فوج مخالف ہے بہت بڑا جمہوریت کا چیمپین ہے تو وہ دنیا کا بیوقوف ترین انسان ہو گا۔ عمران خان ایک موقع پرست آدمی ہے جو شخص بھی اس کے کام آ سکتا ہے وہ اس کے پاؤں بھی پڑھنے کو تیار ہو جاتا ہے جیسے ہی اس کا کام نکل جاتا ہے عمران خان پلٹ کر بھی اس کی طرف نہیں دیکھتا۔ بہرحال اسٹیبلشمنٹ کو ابھی سے آنے والے چند ماہ کے لیے حکمت عملی تیار کرنی پڑے گی کیونکہ وقت تیزی سے گزر رہا ہے مائنس ایک کو کرنا تھا دو اس کے ساتھ مزید کر دیے گئے ہیں شاید یہ فیصلہ غلط تھا اس کو اب ریورس کیسے کرنا ہے اصل مسئلہ یہی درپیش ہے۔
شفقنا اردو
نوٹ: شفقنا کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں