شفقنا اردو: کینیڈا کی جانب سے غیر ملکی طلبہ کو داخلے دینے پر سختی کرنے کی وجہ سے بھارتی درخواست گزاروں خاص طور پر زیادہ متاثر ہوئے ہیں، جو ملک کبھی بھارتی طلبہ کی پسندیدہ منزل تھا، اب اپنی کشش کھو رہا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کینیڈا نے 2025 کے اوائل میں مسلسل دوسرے سال غیر ملکی طلبہ کو دیے جانے والے اسٹوڈنٹ ویزا کی تعداد کم کر دی، جو عارضی تارکین وطن کی تعداد میں کمی اور طلبہ ویزوں سے متعلق دھوکا دہی کے مسئلے سے نمٹنے کی ایک وسیع تر کوشش کا حصہ ہے۔
محکمہ امیگریشن کے رائٹرز کو فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق اگست میں کینیڈا کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم کے لیے بھارتی طلبہ کی درخواستوں میں سے تقریباً 74 فیصد مسترد کر دی گئیں، جبکہ اگست 2023 میں یہ شرح تقریباً 32 فیصد رہی تھی۔
اس کے برعکس، مجموعی طور پر اسٹڈی ویزا کی درخواستوں میں سے تقریباً 40 فیصد ان مہینوں میں مسترد کی گئیں، جبکہ اگست 2025 میں چینی طلبہ کی 24 فیصد درخواستیں رد کی گئیں۔
بھارتی درخواست گزاروں کی تعداد بھی کم ہوئی ہے، اگست 2023 میں 20 ہزار 900 بھارتی طلبہ نے درخواستیں دی تھیں، یہ تعداد گھٹ کر اگست 2025 میں 4 ہزار 515 رہ گئی ہے۔
گزشتہ دہائی کے دوران بھارت کینیڈا کے لیے غیر ملکی طلبہ کا سب سے بڑا ذریعہ رہا ہے، اگست میں بھارت کے اسٹڈی پرمٹ مسترد ہونے کی شرح ان تمام ممالک میں سب سے زیادہ تھی جن کے کم از کم ایک ہزار طلبہ کو منظوری ملی۔
ممکنہ طلبہ کی درخواستوں کے مسترد ہونے میں یہ اضافہ اس وقت سامنے آیا ہے جب کینیڈا اور بھارت ایک سال سے زائد کشیدگی کے بعد تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سابق کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے بھارتی حکومت پر 2023 میں برٹش کولمبیا میں ایک کینیڈین شہری کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا، جسے بھارت نے بارہا مسترد کیا ہے۔
کینیڈا کے امیگریشن ڈیپارٹمنٹ نے بتایا کہ 2023 میں کینیڈین حکام کو تقریباً ایک ہزار 550 اسٹڈی پرمٹ کی ایسی درخواستوں کا پتا چلا تھا، جو جعلی منظوری کے قبولیت ناموں سے منسلک تھیں، ان میں سے زیادہ تر بھارت سے تھیں۔
اس میں بتایا گیاکہ گزشتہ سال کینیڈا کے سخت جانچ نظام نے تمام درخواستوں میں سے 14 ہزار سے زائد مشتبہ جعلی قبولیت نامے شناخت کیے۔
امیگریشن ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان نے کہا کہ کینیڈا نے بین الاقوامی طلبہ کے لیے جانچ کے طریقہ کار کو مزید سخت کر دیا ہے اور درخواست دہندگان کے لیے مالی تقاضے بھی بڑھا دیے ہیں۔
اوٹاوا میں بھارتی سفارت خانے نے کہا کہ بھارت سے طلبہ کی اسٹڈی پرمٹ درخواستوں کے مسترد ہونے کا انہیں علم ہوا ہے، لیکن اسٹڈی پرمٹ جاری کرنا کینیڈا کا اختیار ہے۔
سفارت خانے نے ایک بیان میں کہا کہ ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ دنیا کے بہترین طلبہ میں سے کچھ بھارت سے تعلق رکھتے ہیں اور کینیڈین ادارے ماضی میں ان طلبہ کی صلاحیت اور تعلیمی قابلیت سے بہت مستفید ہوئے ہیں۔
کینیڈا کی وزیرِ خارجہ انیتا آنند نے اکتوبر میں بھارت کے دورے کے دوران رائٹرز کو بتایا تھا کہ کینیڈین حکومت اپنے امیگریشن نظام کی سالمیت کے بارے میں فکرمند ہے، لیکن کینیڈا میں بھارتی طلبہ کی موجودگی برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
غیر ملکی طلبہ کے ساتھ کام کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ اب درخواستوں کی جانچ پڑتال پہلے سے زیادہ سخت ہو گئی ہے۔
کینیڈین ویزا کے لیے لوگوں کی رہنمائی کرنے والے بارڈر پاس کے مائیکل پیئٹروکارلو کا کہنا ہے کہ ان کی فرم درخواست گزاروں کو اس بات کے لیے تیار کرتی ہے کہ وہ اپنی اہلیت کاغذی کارروائی سے ہٹ کر بھی ثابت کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر جب طلبہ کو یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ان کے پاس خود کو سہارا دینے کے لیے کافی رقم ہے، تو صرف بینک اسٹیٹمنٹ دینا کافی نہیں، انہیں اضافی وضاحت دینی پڑ سکتی ہے کہ یہ رقم کہاں سے آئی۔
کینیڈا کی سب سے بڑی انجینئرنگ یونیورسٹی یونیورسٹی آف واٹرلو نے پچھلے تین سے چار سالوں میں بھارت سے آنے والے انڈرگریجویٹ اور گریجویٹ طلبہ کی تعداد میں دو تہائی کمی دیکھی ہے۔
یونیورسٹی کے اسٹریٹجک انرولمنٹ مینجمنٹ کے ایسوسی ایٹ نائب صدر، ایان وانڈر برگ نے کہا کہ یہ کمی زیادہ تر حکومت کی جانب سے غیر ملکی طلبہ کے ویزوں پر لگائی گئی حد کی وجہ سے ہوئی ہے، جس نے طلبہ کے مجموعی تناسب کو بدل دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہم ایک بین الاقوامی یونیورسٹی ہیں۔
یونیورسٹی آف ریجائنا اور یونیورسٹی آف سسکیچیوان نے بھی بھارتی طلبہ کے اندراج میں کمی کی اطلاع دی ہے۔
2015 میں بھارت سے کینیڈا آ کر مکینیکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے والے جسپیریت سنگھ نے کہا کہ انہیں یاد ہے کہ اس وقت حکومت کے اشتہارات نئے آنے والوں کو ملک میں ’پڑھو، کام کرو، رہو‘ کا پیغام دیتے تھے، لیکن اب یہ رویہ بدل گیا ہے۔ انہوں نے بعد میں ’انٹرنیشنل سکھ اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن‘ بھی قائم کی۔
انہوں نے بتایا کہ بھارتی طلبہ کے زیادہ ریجیکشن ریٹ پر حیران نہیں، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ دھوکا دہی واقعی ایک مسئلہ ہے۔