وزیراعظم شہباز شریف نے صحافیوں کے خلاف جرائم ختم کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ البتہ یہ بیان دیتے ہوئے انہیں اپنی حکومت کے ٹریک ریکارڈ اور طرز عمل کا جائزہ بھی لینا چاہیے۔ اس وقت پاکستان میں صحافیوں کی آزادی و زندگیوں کو سب سے بڑا خطرہ حکومتی اداروں اور پابندیوں سے لاحق ہے۔ اس لئے اگر ملک میں صحافیوں کے خلاف جرائم پر کسی کے خلاف کارروائی ضروری ہے تو سب سے پہلے حکومت کو کٹہرے میں لایا جائے۔
خود احتسابی کے بغیر نہ تو کسی حکومت یا لیڈر کے بیانات کی کوئی اہمیت باقی رہتی ہے اور نہ ہی صورت حال میں کسی تبدیلی کا امکان پیدا ہوتا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع ایک بیان میں بظاہر ملک میں صحافیوں کے خلاف زیادتی اور جرائم میں ملوث ہونے والے عناصر کی سرکوبی کا عہد کیا ہے لیکن یہ بیان دیتے ہوئے وہ یہ بھول گئے کہ اس وقت پاکستان میں آزاد صحافت اور خود مختاری سے ضمیر کی آواز کے مطابق رپورٹنگ یا تبصرہ کرنے والے صحافیوں کو حقیقی خطرہ درحقیقت حکومت کی پالیسیوں اور اس کے زیر انتظام کام کرنے والے اداروں سے ہی لاحق ہے۔ اس کے علاوہ صحافیوں کے حالات کار بہتر بنانے کے لیے اقدامات بھی حکومت ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لیکن ملک کے طاقت ور میڈیا ہاؤسز کو سرکاری پالیسی کے مطابق کام کرنے کی ’کھلی چھٹی‘ دے کر درحقیقت حکومت عامل صحافیوں کے حقوق سلب کرنے کا سبب بن رہی ہے۔
اب یہ حقیقت کسی سرکاری راز کی حیثیت نہیں رکھتی کہ میڈیا ہاؤسز نے حکومت کی ملی بھگت سے خبر اور اس کی ترسیل کو کمرشلائز کر دیا ہے۔ مالکان کو اس سے غرض نہیں ہوتی کہ خبر سچ پر مبنی ہو اور ان کے اخباروں یا ٹی پروگراموں میں پیش کی گئی آرا متوازن اور عوامی مفاد کے مطابق ہوں۔ یہ ادارے محض اس بات کا لحاظ کرتے ہیں کہ حکومت کی مرضی کے خلاف کوئی خبر یا تبصرہ شائع یا نشر نہ ہو۔ اس خدمت گزاری کے بدلے میں انہیں اپنے ہاں کام کرنے والے صحافیوں کو دبانے، ان کا معاشی استحصال کرنے اور انہیں تمام بنیادی سہولتیں دینے سے انکار کا حق دے دیا گیا ہے۔ کوئی سرکاری ادارہ کبھی میڈیا مالکان سے یہ دریافت نہیں کر سکتا کہ کیا ان کے ہاں کام کرنے والے صحافیوں اور دوسرے کارکنوں کو ان کی محنت کے مطابق مشاہرہ و سہولتیں دی جا رہی ہیں یا ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔
یہ حقیقت اب روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ میڈیا مالکان صحافیوں کو اپنی مرضی کے مطابق کم تنخواہ پر کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ لیبر قوانین کے مطابق ہر ادارہ ملازمین کو چند بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ لیکن بظاہر میڈیا ہاؤسز پر ان قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا۔ میڈیا ہاؤسز میں صحافیوں کو دیہاڑی دار مزدوروں کی طرح کنٹریکٹ پر کام دیا جاتا ہے۔ بدنصیبی سے سال ہا سال تک صحافت میں خدمات سرانجام دینے والے لوگوں کو بھی باقاعدہ ملازم کا درجہ نہیں دیا جاتا۔ تاکہ انہیں قوانین کے مطابق سہولتیں فراہم نہ کرنی پڑیں۔ اگر کوئی کارکن کبھی اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کی کوشش کرے تو آسانی سے اس کا کنٹریکٹ منسوخ کر کے اسے کام سے فارغ کر دیا جاتا ہے اور کسی نوجوان کو کم مشاہرہ پر وہی کام تفویض کر دیا جاتا ہے۔
گزشتہ کچھ عرصہ سے میڈیا میں آنے والی ڈرامائی تبدیلیوں کا سارا بوجھ بھی غریب عامل صحافیوں کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ کسی حکومت یا ادارے نے کبھی مالکان سے یہ دریافت نہیں کیا کہ انہوں نے تبدیل شدہ حالات میں اپنے ہاں کام کرنے والے صحافیوں کو بدستور کام فراہم کرنے کے لیے کیا متبادل انتظامات کیے ہیں۔ کیا کوئی ادارہ صحافیوں کی عملی تربیت اور صلاحیتوں میں اضافہ کے لیے اقدامات کرتا ہے تاکہ تبدیل شدہ حالات کے باوجود صحافی نئے ماحول اور تکنیک کے مطابق کام کرنے کے قابل ہوں۔ مالکان کی اسی لاپرواہی اور حکومت کی مجرمانہ غفلت کا نتیجہ ہے کہ ٹیلی ویژن نشریات یا اخبارات بند ہونے پر صحافیوں کو نوکریوں سے نکال دیا جاتا ہے۔ کوئی ادارہ ان کا پرسان حال نہیں ہوتا اور صحافت میں شدید مقابلے اور ابتر حالات کار کی وجہ سے ایسے محروم صحافیوں کو کسی نئی جگہ پر بھی کام نہیں ملتا۔ ایسے میں یا تو انہیں بیروزگار ہونا پڑتا ہے یا پہلے سے بھی کم معاوضے اور سخت شرائط پر کام کے لیے مجبور ہونا پڑتا ہے۔
یہ سچائی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ میڈیا ہاؤسز صحافیوں کو بلکہ دیگر اخباری کارکنوں کو کئی کئی ماہ تک تنخواہ ادا نہیں کرتے۔ اور اس صورت میں اگر کسی کو نوکری سے نکال دیا جائے تو اس کے بقایا جات ادا کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی۔ میڈیا ہاؤسز اشتہارات کی بندش یا اخراجات میں اضافہ کا عذر تراش کر صحافیوں کی خون پسینے کی محنت کا معاوضہ ادا کرنے سے بھی منکر ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں کوئی ادارہ طاقت ور میڈیا ہاؤسز کی بازپرس کرنے کا حوصلہ نہیں کرتا اور کمزور لاچار صحافی اپنا سر پیٹ کر رہ جاتے ہیں۔ کوئی یہ سوال کرنے کا حوصلہ بھی نہیں کرتا کہ اگر میڈیا کا کام خسارے میں جا رہا ہے تو اس کے مالکان کیسے عیاشی کی زندگی گزارتے ہیں؟
میڈیا ہاؤسز نے الیکٹرانک میڈیا مروج ہونے کے بعد یہ چلن بھی اپنایا ہوا ہے کہ وہ ایسے چہروں کو اینکر کے طور پر کام دیتے ہیں جن کی ’مارکیٹ ویلیو‘ ہو یعنی جن کی شکل دکھا کر مالکان کو زیادہ اشتہارات مل سکیں۔ اسی لیے ان نام نہاد اینکر زکی صلاحیت کے بارے میں کوئی چھان پھٹک کرنے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے اور انہیں غیر معمولی معاوضہ دیا جاتا ہے جبکہ عام صحافی کو معمولی تنخواہ بھی احسان جتا کر ادا کی جاتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ یہی چہرے حکومت اور صاحبان اختیار کی نظر میں حقیقی ’صحافی‘ کہلاتے ہیں۔ ایسے میں ان ہزاروں صحافیوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے جو یا تو فیلڈ میں خبروں کی تلاش میں جوتیاں چٹخاتے ہیں یا ڈیسک پر بیٹھ کر خبر سازی اور ریسرچ کا باریک اور مشکل کام سرانجام دیتے ہیں۔ مالکان کی اس دوہری پالیسی کو بھی حکومت اسی لیے برداشت کرتی ہے کہ میڈیا مالکان سرکاری بیانیہ کو فروغ دینے میں دل و جان سے حاضر رہتے ہیں۔ اس کی ایک مثال اس وقت خبروں میں عمران خان کا نام لینے پر غیر علانیہ پابندی بھی ہے۔
صحافیوں کا پیٹ کاٹنے اور ان کے معاشی حالات تنگ کرنے میں حصہ دار بن کر درحقیقت حکومت ملک میں صحافی اور صحافت کے خلاف سب سے سنگین جرم کی مرتکب ہو رہی ہے۔ کوئی صحافی صرف اسی وقت مظلوم نہیں ہوتا جب اسے کوئی ادارہ اٹھا کر لے جائے یا اسے کوئی نامعلوم گولی نشانہ بنانے کی کوشش کرے۔ بلکہ مناسب اور بروقت مشاہرہ نہ ملنے پر بھوک و بیماری سے مرنے والے صحافی اور ان کے لواحقین بھی ویسے ہی ظلم کا شکار ہیں۔ ان لوگوں کا خون ناحق بھی حکومت کی ملی بھگت سے میڈیا ہاؤسز میں مزدور دشمن جابرانہ پالیسیوں کے سر پر ہوتا ہے۔ وزیر اعظم نے یہ تو کہہ دیا کہ ’حکومت صحافیوں کے خلاف جرائم کے معاملات میں موثر تفتیش، انصاف اور قانونی کارروائی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرے گی۔ ہم آزادیِ صحافت کے تحفظ اور صحافیوں کو محفوظ ماحول فراہم کرنے کے لئے پُرعزم ہیں‘ ۔ لیکن وہ یہ بتانے سے قاصر رہے کہ ملک میں کتنے صحافیوں کو انصاف مل سکا ہے۔ ناجائز طور سے حراست میں رہنے اور ٹارچر برداشت کرنے کے بعد بیشتر صحافی خاموش رہنے اور زندگی کی خیر منانے پر اللہ کا شکر بجا لاتے ہیں۔ اور حکومت ملک میں دہشت اور سراسیمگی کی فضا پیدا کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔
شہباز شریف نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ’آج کا دن ہمیں اس حقیقت کی یاد دہانی کراتا ہے کہ آزاد، باخبر اور ذمہ دار صحافت کسی بھی جمہوری معاشرے کی بنیاد ہے۔ صحافی حقائق تک عوام کی رسائی کو ممکن بناتے ہیں اور سچائی کے علمبردار ہوتے ہیں۔ اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران ان کے خلاف تشدد، دھمکی یا انتقام پر مبنی جرائم دراصل آزادی اظہار پر حملہ ہیں‘ ۔ لیکن وہ یہ بتانے سے قاصر رہے کہ اگر ان کی حکومت آزاد صحافت پر اتنا ہی یقین رکھتی ہے تو رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس 2025 کے مطابق پاکستان 180 ممالک میں سے 158 ویں نمبر پر کیوں ہے؟ حکومت نے صحافیوں پر پابندیاں بڑھانے اور انہیں مسلسل ہراساں کرتے رہنے کے لیے پیکا قوانین نافذ کیے ہیں۔ صحافی تنظیموں کے بار بار احتجاج کے باوجود ان پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔
گزشتہ ماہ کے شروع میں اسلام آباد پولیس نے آزاد کشمیر ایکشن کمیٹی کے حامیوں کو تلاش کرنے کے لیے نیشنل پریس کلب پر دھاوا بولا اور دیگر لوگوں کے علاوہ متعدد صحافیوں کو زد و کوب کیا۔ اس وقت کئی وزیروں نے صحافیوں سے اظہار یک جہتی کرتے ہوئے فوری تحقیقات کرنے اور قصور واروں کو سزائیں دینے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن اس کے بعد حسب عادت و روایت یہ ساری باتیں بھلا دی گئیں۔ البتہ حکومت پولیس کی مدد سے صحافیوں تک یہ پیغام پہنچانے میں ضرور کامیاب ہو گئی کہ وہ کوئی ’خاص مخلوق‘ نہیں ہیں۔ حکومت چاہے تو انہیں ان کے اپنے ٹھکانے میں گھس کر باہر نکال سکتی ہے۔
اب وزیر اعظم ان صحافیوں و اہل قلم کو خراج تحسین پیش کر رہے ہیں جنہوں نے حق و سچ کی خاطر مشکلات برداشت کیں۔ یا ان اہل خانہ سے اظہار یکجہتی کیا ہے جنہوں نے اپنے پیاروں کو فرضِ منصبی کے دوران کھو دیا۔ لیکن وہ یہ نہیں بتا سکے کہ حکومت نے صحافیوں کے خلاف جرائم میں ملوث کتنے لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچا یا ہے؟ حکومت کو جان لینا چاہیے کہ ملک کی ترقی اور جمہوری روایت کے فروغ کے لیے آزادی رائے بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ موجودہ حکومت کی پالیسیاں ملک کے صحافیوں و شہریوں کو ہر قسم کی آزادیوں سے محروم کر رہی ہیں۔ ان میں آزادی صحافت سر فہرست ہے۔
شفقنا اردو
نوٹ: شفقنا کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں