پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل کرنے اور شہر کے اہم مقامات کو ملانے کے لیے اندرون شہر ریل سروس کا منصوبہ جسے’’کراچی سرکلر ریلوے‘‘ کا نام دیاگیا، سب سے پہلے 1976ء میں تجویز کیا گیا تھا۔
اگرماضی پر ایک نظر ڈالی جائے تو ہمیں ٹرام نظر آئیں گی۔ ٹرام شہرِ قائد کے لیے سب سے پہلا ٹرانسپورٹ منصوبہ تھا جسے انگریز سرکار نے انتہائی قلیل عرصے میں عملی جامہ پہناکر عوام کے سامنے پیش کیا۔ یہ منصوبہ 1881ء میں کراچی میونسپلٹی کے انجینئر مسٹر جیمزاسٹریچن نے پیش کیا ۔
پھر 20 اپریل 1885ء کو سندھ کے کمشنر مسٹر ہینری ارسکن نے قلیل عرصے میں مکمل ہونے والے اس منصوبے ٹرام وے نظام کا افتتاح کیا۔ ابتدا میں اسے کوئلے کے انجن سے چلایاجاتا رہا، جس کے شور سے لوگوں کا سکون برباد ہونے لگا، تاہم بعد میںانجن ہٹاکر ٹرام کو گھوڑوں کے ذریعے کھینچا جانے لگا۔
کچھ عرصے بعد1909ء میں گھوڑا سروس بند کرکے پیٹرول انجن لندن سے منگوائے گئے۔ تیزرفتاری کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر پٹڑیاں تبدیل کی گئیں۔ پہلے سال ہی ٹرام نے اپنی مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دیے اور ایک سال میں 5 ملین کے قریب لوگوں نے اس پر سفر کیا۔ 1913ء میں ٹراموں کی تعداد 37 ہوگئی۔ ہر ٹرام میں 46 مسافروں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔
30اپریل 1975ء کا دن کراچی کی تاریخ کا ایک بدترین دن ثابت ہوا، جب آخری ٹرام نے اپنا سفر بندرروڈ سے بولٹن مارکیٹ تک مکمل کیا۔ 1974ء میں حکومت نے ٹرام ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ حکومت کا مؤقف تھا کہ بندر روڈ پر ٹریفک بڑھنے سے ٹرام سے شدید مشکلات پیش آرہی ہیں۔ جس پر کمپنی نے مکمل نظام کو لپیٹ لیا اور ٹرام کے ساتھ پٹڑیاں بھی اسکریپ کردیں۔
اس سے قبل 1964 میں کراچی میں کراچی سرکلر ریلوے کا منصوبہ بنایا گیا، جسے دو حصوں میں مکمل کیا گیا۔ پہلے مرحلے میں ڈرگ روڈ کو لیاری اسٹیشن سے ملایا گیا، اور پھر دوسرے مرحلے میں اسی ٹریک کو لیاری سے کراچی سٹی اسٹیشن تک جوڑ دیاگیا۔ 1969ء میں اس روٹ پر 24 مسافر ریل گاڑیاں چلا کرتی تھیں۔
پھر وہی ہوا جو ٹرام کے ساتھ ہوا تھا، سازش کے تحت اس نظام کو ناکام بنانے کے لیے پہلے ریل گاڑیوں کو لیٹ کرنا شروع کیا گیا، اور بعدازاں بس مالکان نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی اندھی کمائی میں اضافہ کیا۔ 1980ء کی کامیاب سواری 1990ء میں مسافروں کی عدم دلچسپی اور بس مالکان کی سازشوں کے باعث تباہ ہونا شروع ہوگئی۔ 1994ء میں کئی ریل گاڑیاں یہ کہہ کر بند کردی گئیں کہ خسارہ بڑھ رہا ہے۔ اور 1999ء تک لوپ لائن پر چلنے والی واحد ریل گاڑی کو بھی مکمل طورپر بند کردیاگیا۔
یہ ٹرام اور کراچی سرکلر ریلوے کا شاندار ماضی تھا۔ اب حال دیکھیں تو حکومت کی ٹرانسپورٹ پالیسیاں دیکھ کر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے، جس نے پرائیویٹ سیکٹرکو فائدہ پہنچانے کے لیے شہرِ قائد کے باسیوں سے بہترین اور جدید ٹرانسپورٹ نظام چھین کر انہیں مافیا کے سامنے بے بس کردیا۔ اب لکیر پیٹنے سے کیا فائدہ جب چڑیاں چگ گئی کھیت والا معاملہ ہے۔
19برسوں سے عوام کو کراچی سرکلر ریلوے کا خواب دکھایا جارہا ہے، کبھی منصوبے کی فزیبلٹی اسٹڈی کرکے، تو کبھی مختلف فورمز پر اس کی منظوری لے کرلیکن نتیجہ آج بھی وہی ہے یعنی ڈھاک کے تین پات۔
اس منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں دو اہم چیزیں رکاوٹ بن رہی ہیں
- تجاوزات اور قبضہ مافیا،۔
- پرائیوٹ پبلک ٹرانسپورٹ نظام۔
کینیڈا اور جاپان کی کمپنیوں نے اس پر کام کرنے سے پہلے ہی راہِ فرار اختیار کرنے میں اپنی عافیت جانی۔ شاید انہیں بھی علم ہوگیا تھا کہ کراچی میں یہ دوگروپ انتہائی طاقتور ہیں اور حکومت ان کے سامنے بے بس ہی رہے گی۔ اور شاید حقیقت بھی یہی ہے جس کی وجہ سے آج تک اس منصوبے کو کبھی عملی جامہ پہنانے کی کوشش تک نہیں کی گئی۔
پھر 2003ء، 2005ء، 2013ء، 2014ء اور پھراگست 2017ء میں اس منصوبے کی پھر بازگشت سنائی دی اور منصوبہ یہ کہہ کر ایک چینی کمپنی کے حوالے کردیا گیا کہ وہ اسے مکمل کرکے سی پیک کا حصہ بنائے گی۔ لیکن آج چینی کمپنی کو بھی تجاوزات کا سامنا ہے اور حکومت اب بھی اس مسئلے پر سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہی۔
ستمبر 2017ء میں اس منصوبے پر کام کا آغاز کیا جانا تھا، اور اس کی تکمیل 2020ء تک ہونی تھی، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نہ اس منصوبے پر کوئی پیش رفت ہوئی اور نہ ہی اس پر کوئی کام ہوتا دکھائی دیا۔
سابقہ چیف جسٹس آف پاکستان اور موجودہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان کراچی سرکلر ریلوے میں نہایت سنجیدہ دکھائی دیئے، اوراس حوالے سے کئی احکامات جاری کرنے کے بعد بالآخر سپریم کورٹ نے وزیر اعلیٰ سندھ کو یہ ہدایت جاری کی ہیں کہ کراچی سرکلر ریلوے کے ٹریک پر قائم تجاوزات 15 دن میں ختم کرکے ایک ماہ میں ٹرین چلائی جائیں۔
اس حکم کو بھی 4 دن گزر گئے ہیں لیکن سندھ حکومت سوائے اجلاس منعقد کرانے کے اپنے کام میں کوئی پیش رفت نہیں کرسکی ہے
اگرچہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ جس طرح عدالت نے حکم دیا ہے اس کے مطابق کے سی آر (کراچی سرکلر ریلوے) منصوبہ شروع کرنے جا رہے ہیں۔
لیکن اس معاملے کو مزید گھمبیر بنایا جارہا ہے وزیر اعلیٰ سندھ نے چیف سیکریٹری کو کہا ہے وفاقی حکومت کو خط لکھیں کہ سی پیک کا جو پیکج لاہور کو دیا گیا ہے وہ ہمیں بھی دیا جائے۔ یعنی سرکلر ریلوے کے معاملے پر پھر سے سیاست شروع کردی گئی ہے۔
وزیر اعلیٰ نے محکمہ ٹرانسپورٹ کو بھی ہدایت کر دی ہے کہ وہ وزارت ریلوے کو خط لکھ کر کہیں کہ رائٹ آف وے سے تجاوزات ہٹائے۔ رائٹ آف وے ٹرانسفر ہوتے ہی عالمی ٹینڈر کرائیں گے
مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ کے سی آر کے لیے وفاق کو پھر ساوورین گارنٹی کے لیے کہیں گے، وفاق سے منصوبے کی منظوری بھی کرائیں گے۔
اس کو کہیں، اس کو خط لکھیں ، ان سے فنڈز مانگیں، ان سے یہ کرائیں ، اس سے یہ ہوجائے گا۔۔۔!!! اسی اگر مگر میں خدشہ ہے کہ سرکلر ریلوے کا معاملہ پھر کھٹائی میں پڑ جائے گا، اور ریلوے ٹریک کے اطراف اربوں روپے کی زمین پر قبضہ کرانے والی مافیا سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر اس منصوبے پر عمل درآمد میں رکاوٹ بن رہی ہے جبکہ شہر کا ٹرانسپورٹ مافیا بھی سرگرم ہوکر منصوبہ رکوانے کیلئے سیاسی اثر ورسوخ استعمال کرنے لگا ہے۔
اس تمام صورتحال کے تناظر میں لگتا نہیں کہ سرکلر ریلوے کیلئے کوئی حرکت بھی ہوسکتی ہے بلکہ امکان یہی ہے کہ چند روزہ سرگرمی کے بعد اس منصوبے کو پھر سرد خانے کی نذر کردیا جائے گا۔