گوگل نے یہ قدم اس وقت اٹھایا ہے جب چند روز قبل ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہواوے کو بلیک لسٹ کردیا تھا۔
ہواوے موبائل انٹرنیٹ کے جدید فائیو جی نیٹ ورک کے آلات بنانے والی سب سے بڑی کمپنی ہے اور کئی مغربی ممالک اور ان کی کمپنیاں اس کے تیار کردہ آلات استعمال کرتی ہیں۔
ہواوے کے صارفین فی الحال اینڈرائڈ ایپس اور گوگل پلے سروس استعمال کرسکیں گے تاہم رواں سال گوگل کے اگلے ورژن کے لانچ ہونے کے بعد ان کے ہواوے کی ڈیوائسز پر دستیاب نہ ہونے کا امکان ہے،اس کے بعد ہواوے کے صارفین اینڈرائڈ آپریٹنگ سسٹم اوپن سورس لائسنس کے ذریعے اس نئے ورژن کو استعمال کرسکیں گے۔
دوسری جانب ہواوے کمپنی نے اپنا آپریٹنگ سسٹم بنانے کی تصدیق کردی ہے، ہواوے کے موبائل چیف رچرڈ یو چینگ ڈونگ کا کہنا تھا کہ اگر ہواوے پر گوگل اور اینڈرائیڈ سروسز مستقل طور پر معطل ہوگئیں تو ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ان کی کمپنی نے پہلے سے ہی اپنا ایک آپریٹنگ سسٹم تیار کرلیا ہے۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ ضرورت پڑنے پر موبائل فونز اور کمپیوٹرز کے لیے اس سسٹم کو متعارف کروا دیا جائے گا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ کمپنی اس اقدام کے بعد دنیا بھر میں اپنے کاروبار پر پڑنے والے ہر قسم کے اثرات کے لیے تیار ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے صدر ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے تھے جس کے تحت امریکی کمپنیوں پر ایسی غیر ملکی کمپنیوں کے تیار کردہ ٹیلی کام آلات استعمال کرنے پر پابندی ہوگی جنہیں امریکی حکومت قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتی ہو۔
جبکہ ہواوے کی انتظامیہ ماضی میں کئی بار کہہ چکی ہے کہ وہ امریکا کے لیے خطرہ نہیں اور اس پر امریکی کمپنیوں کی جاسوسی کے الزامات بے بنیاد ہیں۔
امریکی اقدامات کے بعد چین میں صارفین نے بڑی تعداد میں امریکی ساختہ آئی فون کا استعمال ترک کرنا شروع کردیا ہے اور امریکی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جارہا ہے جس سے امکان ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ سے امریکی مصنوعات کا خاتمہ اور امریکی کمپنیوں کو اربوں ڈالرز خسارے کا سامنا ہوسکتا ہے۔