تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں جہاں دیگر علوم و فنون کا راج رہا وہیں قوالی میں بھی بہت مشہور نام سامنے آئے جنھوں نے اپنی آواز اور انداز سے فن قوالی کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کرایا، ان میں عزیز میاں قوال ،غلام فرید صابری، مقبول صابری، امجد صابری، نصرت فتح علی خان جیسے نام سرفہرست ہیں۔
قوال اور قوالی
آج ہم اپنے قارئین کیلئے پاکستان کے معروف قوال محمد افضل صابری کا خصوصی انٹرویو پیش کررہے ہیں جو قوال خاندان سے تعلق رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی منفرد آواز و انداز کی وجہ سے ہر"محفل سماع "کی جان بن چکے ہیں۔
تعارف:
افضل صابری کا تعلق اجرالہ گھرانے سے ہے ان کے والد استاد محمد انور خان پاکستان کے معروف موسیقاروں کے ساتھ بطور طبلہ نواز رہ چکے ہیں لیکن بعد میں صابری برادرز (غلام فرید صابری اور مقبول صابری گروپ) میں طبلہ ور نال نواز کی حیثیت سے شامل ہوئے تو پھر قوالی کے ہی ہوکر رہ گئے۔
افضل صابری بتاتے ہیں کہ سہون شریف میں حضرت لعل شہباز قلندر کے مزار پر "دھمال” کے ساتھ نال اور پھر قوالی میں پہلی مرتبہ نال و طبلہ کاا استعمال ان کے والد نے ہی کیا یہی وجہ ہے آج پوری دنیا میں جہاں جہاں بھی قوالی پڑھی جاتی ہے اس میں طبلہ و نال کا استعمال لازمی جز بن گیا ہے اور قوالی کے ساتھ دھمال کی دھن بھی شروع کردی گئی۔
قوالی کا شوق کب اور کیسے ہوا؟؟
افضل صابری کہتے ہیں انھیں قوالی کا شوق نہیں تھا بلکہ قوالی ان کی روح میں سمائی ہوئی تھی اور انھیں بچپن سے صرف یہی دھن یہی لگن تھی کہ انہوں نے قوال ہی بننا ہے کسی اور جانب کسی دوسرے شعبے کا کبھی سوچا ہی نہیں۔
کہتے ہیں بچپن میں جو پہلا کلام سنا وہ قوالی تھی، جو پہلی موسیقی کانوں میں گئی وہ بھی قوالی کی ہی دھن تھی تو بس یہ سمجھیں اس کے علاوہ نہ سنا نہ کچھ سمجھا۔ یہی وجہ ہے کہ قوالی سننے اور قوالی پڑھنے کے علاوہ کچھ اچھا نہیں لگا اور اسے ہی اپنا لیا۔
قوالی کی تربیت کس سے حاصل کی؟؟
افضل صابری کا کہنا ہے کہ انھوں نے قوالی کی باقاعدہ کسی سے تربیت حاصل نہیں کی، بلکہ اپنے والد صاحب کے طبلے کو ایسے ہی بجانا شروع کیا، وہ دور سے مجھے دیکھ رہے تھے میری انگلیوں کے انداز کو دیکھ کر حیران ہوئے، انھوں نے یہ سوچ کر مجھے قوالی کی جانب راغب نہیں کیا تھا کہ یہ بہت مشکل شعبہ ہے لیکن میرے طبلے بجانے اور گنگنانے کے انداز سے وہ اتنے متاثر ہوئے کہ مجھے اس شعبے میں خوشی خوشی آنے کی اجازت دیدی۔
پھر والد صاحب نے مجھے بتایا کہ دیکھ لو تم اس شعبے میں آ تو رہے ہو لیکن یاد رکھنا بارہ، بارہ گھنٹے کی ریاضت۔ ورزش، یکسوئی اور سب سے بڑھ کر دل و دماغ کی پاکیزگی بہت ضروری ہے اگر تہم یہ سب مشکل مرحلےطےکرنےکیلئےتیارہو تومجھے کوئی اعتراض نہیں۔
جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ بچپن سے قوالی ہی سنی تھی تو والد صاحب کی باتوں کو میں نے آسانی سے قبول کرلیا یہ اور بات ہے کہ مجھے بعد میں اندزہ ہوا کہ وہ جو کہتے تھے واقعی فن قوالی انتہائی مشکل ہے لیکن الحمد اللہ کرم ہے اس مالک کا کہ اس نے عزت رکھی ہے۔
افضل صابری کہتے ہیں قوالی میں سب سے زیادہ متاثر صابری برادر سے ہوں بالخصوص میرے استاد میرے محترم حاجی غلام فرید صابری اور مقبول احمد صابری، ان جیسے قوال پورے برصغیر میں کوئی نہیں ہیں ان کے پڑھے گئے کلام "بھر دو جھولی میری” اور "تاجدار حرم ہو نگاہ کرم” جیسے کلام برسوں بعد بھی ویسے ہی مقبول ہیں، اگر کہا جائے کہ اصل قوال وہی تھے اور قوالی کا انھوں نے اصل چہرہ دنیا کے سامنے دکھایا تو غلط نہیں، وہی میرے آئیڈیل ہیں۔
فن قوالی کے بارے میں کچھ بتائیں اسے قوالی کیوں کہتے ہیں؟؟
اصل میں لفظ’’قوالی‘‘عربی کے لفظ ’’قول‘‘سے ماخوذ ہے۔ قول کا مطلب ہوتا ہے ’’بات‘‘یا ’’بیان کرنا‘‘۔ اس طرح قوالی کا مطلب ہوا وہ بات جو بار بار دہرائی جائے، لفظ قوالی کو پورے برصغیرمیں غزل کی ایک خاص صنف کے نام کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا، قوالی ایک خاص انداز کے طرز کلام کو کہتے ہیں جن میں اللہ کی حمد وثنا ہوتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف ہوتی ہے یا صوفیہ کرام و اولیائے اللہ کی منقبت بیان کی جاتی ہے،
کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ قوالی کی ابتداء برصغیر سے ہوئی؟؟
جی ہاں یہ بات سچ ہے کہ اس کی ابتدا اگرچہ حضرت نظام الدین اولیاء کےمرید ِخاص حضرت امیرخسروسے مانی جاتی ہےجو اپنےعہد کےایک معروف شاعر ہونےکےساتھ ساتھ موسیقی کےفن میں بھی مہارت رکھتے تھےمگر سماع کی محفلیں اس سے پہلے بھی رائج تھیں، ان صوفیاء کے علم میں تھا کہ برصغیرمیں لوگوں پرموسیقی کی گہری چھاپ ہے۔ چنانچہ ان عظیم شخصیات نےاس روایت کوبھی اپنےاندرسمونے کی بھر پورکوشش کی۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ "ذکر اورمحفل ” کی روایت ہزاروں برس پرانی ہے، یہ روایت اسلام سے پہلے بھی اپنے ایک الگ انداز میں موجود رہی ہے۔ مگر”سماع” کو اپنے جوہری انداز میں خالصتاً اسلام سے منسلک کہا جاتا ہے۔ امام غزالیؒ نے اس کو بہت تفصیل سے بیان کیا۔ انھوں نے “ذکر” اور “سماع” کے فرق کو بھی اجاگر کیا۔ برصغیر میں اسلام “صوفیا” کی بدولت عام لوگوں تک پہنچا۔ صوفیا کا کمال یہ تھا کہ انھوں نے ہمارے دین کو لوگوں کے لیے آسان اور سہل بنا کر پیش کیا قوالی اس کی ایک اہم صورت کہلاتی ہے۔
کون سا کلام بہت اچھا لگتا ہے؟؟
میرا کلام کیا کہوں اصل میں تو اللہ تعالیٰ نے مجھ پرمہربانی کردی، کہ ایک دعائیہ کلمات میری زبان سے جاری ہوئے "الہٰی کوئی ایسا انتظام ہوجائے” اور یہ کلام بس ایسا ہوا جس نے مجھے بلندی کے اس مقام پر پہنچایا جس کا شاید میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا، یہ میرے پروردگار کا کرم ہے، اور یہ کلام آپ یقین کریں اب تک میں ہزاروں مرتبہ پڑھ چکا ہوں لیکن آج بھی کہیں پڑھتا ہوں تو وہی لطف وہ وجد ملتا ہے جو پہلے دن ملا تھا۔
کس جگہ پڑھ کر بیزاری کا احساس ہوا؟؟
کوئی ایسی محفل جہاں سننے والے تو ہوں لیکن ان کا مقصد تفریح کرنا ہو یا کچھ لوگ صرف تنقید کیلئے آئے ہوں یا بٹھائے گئے، لیکن ایسی جگہ کا احساس ہوتے ہی سمجھیں میرے اندرکا قوال دوگنا طاقت ور ہوجاتا ہے، اوریہ سوچ بیدار ہوجاتی ہے کہ اپنے کلام کے ذریعے ان لوگوں کے منفی تاثر کو مثبت سوچ میں بدل سکوں، اور اللہ و رسول کا لاکھ لاکھ شکر، ان کا کرم کہ اب تک میں اس میں کامیاب رہا ہوں جس سے بیزاری کا معاملہ ہی ختم ہوجاتا ہے۔
سب سے زیادہ کس جگہ اپنا کلام پڑھنے میں وجد کی کیفیت طاری ہوئی؟؟
دیکھیں قوالی تو نام ہی وجد اور کیفیت کا ہے، اور ہرجگہ ایسی ہی کیفیت ہوتی ہے ایسا نہ ہو تو قوالی سنے کون ؟ بس اس کی مقدار کہیں کم کہیں زیادہ ہوجاتی ہے اس لحاظ سے دیکھا جائے تو حضرت بابا فرید گنج شکررحمۃ اللہ علیہ کےدربارپرجب کلام پڑھنے کا موقع ملا تو وہاں جو کیفیت تھی اسے بیان نہیں کیا جاسکتا، وہاں دربارکے سامنے ملک کے درجنوں مشہورومعروف د قوال صاحبان اپنا کلام پڑھتے ہیں کسی کو 5 منٹ کسی کو 10 منٹ اور زیادہ سے زیادہ 30 منٹ وہاں کلام پڑھنے کی اجازت ہوتی ہے، میں نے وہاں 5 منٹ کلام پڑھنےسے آغاز کیا اوریہ دورانیہ اب الحمد اللہ ڈھائی گھنٹے تک جاپہنچا ہےمجھے دربار پر حاضری کی خصوصی دعوت بھی دی جاتی ہے یہ سعادت اللہ کا کرم ہے۔
کیا قوالی کے ساتھ جدید میوزک یا پاپ اسٹائل شامل کرنا درست عمل ہے؟؟
افضل صابری کے مطابق قوالی کیلئےضروری ہےکہ آوازواندزکےساتھ اس کی سرتال بھی ردھم کے ساتھ ہوتاکہ سننے والے کے کانوں کو بھلی لگے اوروہ پڑھےجانے والےقول پرمکمل توجہ دے سکے۔
وہ کہتے ہیں کہ قوالی میں مرکزی ساز ہارمونیئم جرمنی کی ایجاد ہے، جسے برصغیر کا ساز سمجھا جانے لگا جبکہ پہلےقوالی صرف تارکےساز سے شروع ہوئی تھی، پھر دف کا استعمال شروع ہوا، پھر طبلے کی خالص اواز بھی قوالی کیلئے ہی ہے۔
اس لحاظ سے وقت کے ساتھ ٹیکنالوجی کا استعمال کوئی مضائقہ نہیں لیکن اس کا مقصد یہ نہیں کہ اسے گانے کی شکل دیدی جائے ایسا جو کررہا ہےغلط کررہا ہے، جدید میوزکل ساز بے شک استعمال کریں لیکن لفظ کو چھوڑ کراس کی تان اس کی سرگم چھوٹنا نہیں چاہیئے۔ وقت کےساتھ خود کوضرور بدلیں لیکن قوالی کا اصل فارمولا اس کی روح نہ بدلیں۔
آخر میں افضل صابری اپنے گھر کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان سمیت 6 بھائی، 6 بہنیں ہیں، والد، والدہ ار خاندان کے بزرگوں نےاپنی مہارت، تجربے، شفقت، محبت کواپنے اپنے انداز میں افضل صابری تک پہنچانے کی کوشش کی کہ ہمارا یہ فرزند، یہ بھائی اپنا مقام حاصل کرسکے اور دنیا میں خدا و رسول کے کلام پڑھنے والے کی حیثیت سے پہچانا جائے۔
میرا ایک بیٹا اور 3 بیٹیاں ہیں، باقی 5 بھائی بھی میرے بیٹوں کی طرح ہیں، سمجھ لیں یہ سب کی محبت و کوششیں ہی ہیں کہ آج افضل صابری کچھ بن سکا ہے،میں یہی کہتا ہوں یہ سب افضل صابری ہیں۔
نئے پڑھنے والوں کیلئے کوئی پیغام؟؟
افضل صابری یہاں کسر نفسی سے کام لیتے ہوئے جواب دیتے ہیں کہ وہ خود طفل مکتب ہیں، لیکن کوئی مجھ سے چھوٹا قوالی کے حوالے سے کوئی کام کررہا ہوتا ہے تو اس کی اپنی بساط کے مطابق رہنمائی ضرور کرتا ہوں کیونکہ علم بانٹنے سے بڑھتا ہے میں یہی چاہتا ہوں قوالی جو پڑھے اس کے رموز و اوقاف کے تحت ہی پڑھے۔ تو جہں تک ممکن ہو ضرور لوگوں کو بتاتا ہوں اور میرے در سب کیلئے کھلے ہوئے ہیں۔
افضل صابری بتاتے ہیں وہ پاکستان کے علاوہ ہندستان گئے، اجمیرشریف میں اپنا کلام پڑھا خواجہ غریب نوازکےدربار میں دعا کی، جس کا اثر یہ ہے کہ آج ہر جگہ افضل صابری کا نام جانا اورپہچانا جاتا ہے۔ دبئی، بنگلہ دیش سمیت کئی مقامات پربھی گیا ہوں اور عنقریب پورے یورپ، امریکہ اور مشرق وسطیٰ میں اپنے پروگرامز کیلئے جاؤں گا انکی خواہش کلیہ شریف صابری پاک کے دربار پرجا کر کلام پڑھنے کی ہے۔