وزارت قانون اور ایسیٹس ریکوری یونٹ نے ججز کے خلاف ریفرنس کے معاملے پر مشترکہ بیان جاری کردیا جس میں بتایا گیا ہے کہ ایسٹس ریکوری یونٹ کو تین ججوں کے بیرون ملک جائیدادوں کی اطلاع ملی ہیں۔
اعلامیے کے مطابق ججوں سے متعلق معاملہ 1973 کے رولز آف بزنس کے تحت وزارت قانون و انصاف کا دائرہ اختیار ہے، ججزکی جائیدادوں سےمتعلق شکایت پر کارروائی کے لیے معاملہ وزارت قانون کوبھجوایا گیا۔
وزارت قانون نے ایسٹس ریکوری یونٹ کو شکایت میں درج معاملےکی تصدیق کی ہدایت کی، یونٹ نے تصدیق کیلئے ایف بی آر، نیب اور ایف آئی اے سے مل کر معلومات اکٹھی کی ہیں۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ یہ واضح ہے کہ کارروائی صرف تصدیق شدہ اطلاعات پرہی ہوسکتی ہے وزیراعظم کے ایسٹس ریکوری یونٹ نےججزکی جائیدادوں سےمتعلق تصدیق شدہ رجسٹریز حاصل کیں، یہ رجسٹریاں برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن سےنوٹرائزاورتصدیق شدہ ہیں، جس کے بعد ہی معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے رکھا گیا۔
اعلامیے کےمطابق صدر، وزیراعظم، وزارت قانون اورایسٹس ریکوری یونٹ آئین وقانون اورعدلیہ کی آزادی پریقین رکھتے ہیں، آرٹیکل 209 سے متعلق صدراوروزیر اعظم اقدام نہ کرتےتواپنے فرائض سے غفلت کےمرتکب ہوتے۔
یاد رہے کہ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ہائیکورٹ کے 2 ججز کے خلاف حکومت نے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیے تھے، صدارتی ریفرنسز پر سماعت کیلئے سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس 14 جون کو طلب کرلیا گیا ہے اوراٹارنی جنرل کو نوٹس بھی جاری کیا گیا ہے۔
وفاقی حکومت کی جانب ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کے معاملے پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل زاہد فخرالدین جی ابراہیم احتجاجاً مستعفی ہوگئے تھے،دوسری جانب ملک بھر کی بار ایسوسی ایشن میں صدارتی ریفرنس کے خلاف غصہ پایا جاتا ہےاورپاکستان بارکونسل نےاسی معاملے پر اہم ہنگامی اجلاس بھی 8 اور 9 جون کو طلب کررکھا ہے۔