سورج پر برف پائی جاتی ہے، کائنات میں کھربوں نہیں بس چند ہزار ستارے اور کہکشائیں ہیں، سمندر کا پانی جلد ہی میٹھا ہوجائے گا، اگر آپ کو اس طرح کی باتیں کہین سننے اور پرھنے کو ملین تو پریشان مت ہویئے گا، بلکہ سمجھ جائیں کہ یہ باتیں یقینا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ‘عظیم ذہن’ کی اختراع ہیں۔
یہ الزام نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ٹوئٹر پر اپنے بے سرو پا بیانات کے لیے مشہورہیں، اب یہی دیکھ لیں کہ انھوں نے حال ہی میں امریکی خلائی ادارے ناسا پر تنقید کرتے ہوئے چاند کو مریخ کا حصہ قراردیدیا ہے۔
پریشان نہ ہوں اس سے قبل بھی امریکی صدر اس قسم کی بے شمار باتیں کرچکے ہیں، مثلا 2 جون کو ڈونلڈ ٹرمپ نے 197 ممالک کے درمیان طے پانے والے پیرس عالمی معاہدے 2015 سے یہ کہہ کر علیحدگی اختیار کرلی تھی کہ "دنیا میں کوئی ماحولیاتی خطرات نہیں یہ معاہدہ صرف امریکہ سے اربوں ڈالرز اینٹھنے کیلئے کیا گیا ہے”،
صرف اتنا ہی نہیں ٹرمپ کے نزدیک ماحولیتای تبدیلیوں کی خبریں جھوٹی اور اس سے متعلق سائنسی پیشگوئیاں بالکل غلط ہیں ۔
ٹرمپ تو ٹرمپ ان کے کچھ معاونین تو اس سے بھی آگے ہیں جو ہاتھ میں برف کا گولہ پکڑ کر کہتے ہیں کون کہتا ہے دنیا کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور برف پگھل رہی ہے، سب جھوٹ ہے۔
تو اگر ڈونلڈ ٹرمپ چاند کو مریخ کا حصہ قرار دے دیں یا ، پلوٹو کو امریکی کالونی کہہ دیں اس سے فرق کیا پڑتا ہے وہ دنیا کے سب سے طاقتور صدر ہیں جو چاہیں کہیں۔
اور تو اور جب اپنے ہی خلائی تحقیقاتی ادارے اور اس کے سینکڑوں سائنسدانوں کی تحقیق کو وہ ایک جملہ کہہ کر ناکام قرار دے دیں تو اس سے زیادہ ناسا کیلئے اور کیا اعزاز ہوسکتا ہے کہ ان کا صدر ایک اعلیٰ دماغ رکھتا ہے، جسے ایران ک مفاہمانہ انداز بھی نظر نہیں آتا اور شمالی کوریا کی دھمکیوں میں چھپی محبت بھی دکھائی دے جاتی ہے۔
امریکی خلائی تحقیقاتی ادارہ ناسا 2024 میں چاند پر دوبارہ جانے کے حوالے سے منصوبہ بندی کر رہا ہے اورخلائی ادارہ اس کا باقاعدہ اعلان بھی کر چکا ہے لیکن امریکی صدر نے سوشل میڈیا پر اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ "ناسا کو چاند پر دوبارہ جانے کے حوالے سے بات کرنا بند کر دینا چاہیے، اس سے ابہام پیدا ہو رہا ہے”۔
ٹرمپ نے اپنے ٹویٹ میں مزید لکھا کہ ہم جتنا پیسہ خرچ کر رہے ہیں، ناسا کو چاند پر جانے کے بارے میں بات نہیں کرنی چاہیے، ہم یہ کام 50 سال پہلے کر چکے ہیں۔
یہ ٹویٹ امریکی صدر نے اپنے یورپ کے دورے سے واپسی پر کیا۔ ٹرمپ نے یہ بھی لکھا کہ انہیں "ہمارے کیے جانےوالے کہیں زیادہ بڑے کاموں پراپنی توجہ مرکوزرکھنی چاہیے، بشمول مریخ (چاند جس کا حصہ ہے)، ڈیفینس اورسائنس”۔
اس ٹویٹ کا مطلب غیر واضح ہےلیکن اخذ کیا جا رہا ہےکہ امریکی صدراسپیس ایجنسی کومریخ کو اہمیت دینےپرزور دے رہے ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس سےپہلے 13 مئی کواسی حوالے سےایک ٹوئٹ کرچکےہیں۔
کہ ‘میرے زیرانتظام، ناسا کو ہم دوبارہ اس کےعروج پرپہنچائیں گے اورہم چاند پر واپس جا رہے ہیں اوراس کے بعد مریخ پر’۔
جبکہ امریکی نائب صدر مائیک پینس بھی 2024 میں چاند پر واپس جانے کا اعلان کر چکے ہیں۔
امریکی صدرکی ٹرمپیوں پرہنسنی کے ساتھ تھوڑے آنسو بھی نکل آئیں تو اسے جذباتیت نہ کہا جائے بلکہ یہ اصل میں کیمیکل لوچا ہے جو ایسی باتیں سن کر خود بخود جسم میں رونما ہوجاتا ہے۔
آنسو تواس وقت بھی نکلےتھےجب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے 27 فروری کو پاکستان پرانڈین فضائیہ کے حملے کی اجازت دیتے ہوئے کہا تھا کہ "بادل چھائے ہوئے ہیں بارش بھی وہرہی ہے، جہاز راڈار پر نظر نہیں آئیں گے اور چپکے سے حملہ کرکے واپس آجائیں گے”۔
یہ سب پڑھیں لیکن ہنسنا منع ہے اور رونے کی کوئی بات نہیں ویسے بھی مودی اور ٹرمپ کے ٹویٹس پر سنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی۔