پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اس وقت اپوزیشن میں ہیں، ماضی میں ان دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف بے تحاشہ الزامات بھی لگائے اور ایک دورے کے خلاف اقدامات بھی کیئے گئے۔
کہا یہی جاتا رہا کہ دونوں جماعتوں کے لیڈران اصل میں درپردہ ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے رہے لیکن عوام کو دکھانے اور سیاست چمکانے کیلئے ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کی جاتی تھی۔
اس بات میں کتنی سچائی تھی یہ اس وقت سامنے آیا جب تحریک انصاف اور عمران خان کی حکومت کے خلاف تمام سیاسی جماعتیں متحد ہوگئیں اور ان کی سالاری کرنے والی جماعتیں پیپلز پارٹی و مسلم لیگ ن کے قائدین باہم ایسے سیر و شکر ہوئے کہ اب لگتا ہی نہیں کہ کبھی ایک دوسرے کے دشمن بھی تھے۔
اس مفاہمانہ سیاست نے ایک قدم اس وقت بڑھایا جب مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز اور اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے درمیان ملاقاتیں ہوئیں اور دونوں ایک زبان ہوتے چلے گئے۔
لیکن بات یہیں نہیں رکی بلکہ شاید یہ ابتداء تھی، ان ملاقاتوں میں کچھ اور چیزیں طے ہورہی تھیں، سیاست کے انداز اور تیور بدلنے کی بات ہورہی تھی اسی لیئے مریم نواز نے پارٹی کے صدر اوراپنے چچا شہباز شریف اور بلاول بھٹو نے اپنے والد شریک چیئرمین آصف زرداری کی حکومت سے مل بیٹھ کر بات کرنے کی سوچ کو یکسر مسترد کرکے سب کو حیران کردیا ۔
مسلم لیگ ن کے صدر شہبز شریف نے اسمبلی میں بجٹ تقریر کے دوران کہا کہ حکومت مل بیٹھ کر بات کرے تو ہم بھی دو قدم بڑھائیں گے، اور اصف زرداری نے بھی اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران حکومت کو پیشکش کی کہ حساب کتاب کی باتیں بند کرکے آئیں مل بیٹھ کر آگے کی بات کرتے ہیں۔ تو لگتا ایسے ہی ہے کہ مریم و نواز کو ان کا یہ انداز پسند نہیں آیا۔
اس کا برملا اظہار بھی اس وقت ہوگیا جب آصف زرداری نے صحافیوں سے گفتگو میں جب یہ کہا کہ جس نے جیسا ان کے ساتھ کیا وہ ویسا اس کے ساتھ نہیں کریں گے، تو "بلاول بھٹو نے فورا کہا کہ یہ میرے والد کی سوچ ہوسکتی ہے میری نہیں”۔
اسی طرح ایک روز پہلے مریم نواز بھی کچھ ایسا ہی اندز اپنا چکی تھیں جب انھوں نے یہ کہا کہ "کوئی کچھ بھی کرے میں جلسے بھی کروں گی اور احتجاج سے پیچھے بھی نہیں ہٹوں گی”، اس سلسلے میں سارا شیڈول طے ہوچکا ہے جس میں اب تبدیلی کی گنجائش نہیں۔
مریم و نواز کا یہ انداز بیان عجیب سا محسوس ہونے لگا ہے لیکن کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ یہ رائے ونڈ ملاقات میں مریم و بلاول کے مابین حکومت کے خلاف بھرپور تحریک چلانے کی منصوبہ بندی کا تسلسل ہے یاد رہے اس ملاقات میں پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ ن کی سینئر قیدت میں سے کوئی بھی موجود نہیں تھا۔
بلاول بھٹو اور مریم نواز کے اس بدلتے تیور نے ملک کی سیاست میں بڑی ہلچل کی جانب اشارہ کردیا ہے۔
اس ضمن میں سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شاید مریم و بلاول کو اس بات کا ادراک ہوچکا ہے کہ ان کے "بڑوں” کی سیاست ختم ہوچکی اب کبھی خوشی کبھی غم کی پالیسی کے بجائے جارحانہ انداز اختیار کرنا ہوگا۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ مریم نواز یہ بھی اچھی طرح سمجھتی ہیں کہ ان کی ایک بھی "لوز بال” پارٹی صدر شہبازشریف اور حمزہ شہباز کو چھکا لگاتے ہوئے پارٹی سیاست اپنے نام کرنے کا موقع دے سکتی ہے جس سے مریم کی سیاست ختم ہوجائے گی، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مریم کے اس اندز کے پیچھے لازمی میاں نواز شریف کی تھپکی ہے جو یہ جانتے ہیں کہ ان کی سیاست ختم اور حسن و حسین نواز سیاست کے لائق نہیں اس لیئے مریم ہی ان کی آخری امید ہیں۔
اسی طرح بلاول بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے والد آصف زرداری کے حوالے سے عوام کی رائےچھی نہیں لوگ انھیں اب قبول نہیں کریں گے ایسے میں پارٹی اور اس کی قیادت کو بچانے کا واحد رستہ یہی ہے کہ اب کچھ فیصلے خود اپنی مرضی سے کیئے جائیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق دونوں لیڈران اپنی اسی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ایک ہوچکے ہیں اور ابھی تو اپنے سینئرز سے اختلاف کے دو چار ہی جملے سامنے آئے ہیں لیکن بہت جلد یہ واضح ہوجائے گا کہ مریم نواز اور بلاول بھٹو وہی کریں گے جو ان کو ٹھیک لگتا ہے اس سلسلے میں وہ کسی سینئر کا کوئی مشورہ کوئی تجویز قبول نہیں کریں گے۔