ہمارا بچہ تو موبائل فون کا اتنا دیوانہ ہے کہ پوچھو مت، ہمیں اس کے اتنے فیچرز نہیں پتہ جتنے اسے پتہ ہیں۔
ارے بچہ تھوڑا کھیل لے گا اسے موبائل فون دے دیں کیا ہوجائے گا، کچھ نہیں ہوتا سب کہنے کی باتیں ہیں۔
ارے بیٹا بور مت ہو یہ لو موبائل فون بس تھوڑا کھیل کر واپس کردینا۔
ارے بچے تو بچے ہیں موبائل فون سے تھوڑا بہل جاتے ہیں اس میں حرج ہی کیا ہے۔۔!!
یہ وہ جملے ہیں جو کم و بیش الفاظ کی تھوڑی تبدیلی کے ساتھ آج کل آپ کو ہر گھر میں سننے کو ملیں گے، ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں انسان کیلئے بے پناہ آسانیاں پیدا ہوئی ہیںوہیں اس جدت اور ٹیکنالوجی نے حضرت انسان کو نت نئے مسائل اور بیماریوں کی آماجگاہ بھی بنا دیا ہے۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک سال کے بچے کے ہاتھ میں بھی ماں باپ بڑی بے فکری سے موبائل فون پکڑا دیتے ہیں اور یہی کہتے نظر آتے ہیں ، خوش ہوجاتا ہے موبائل فون دیکھ کر۔
پھر رفتہ رفتہ یہ کچھ منٹ سے کچھ گھنٹے اور بچے کی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ موبائل فون استعمال کا دورانیہ بھی بڑھ جاتا ہے اور ایک وقت آتا ہے ماں باپ بچوں کو آوازیں لگارہے ہوتے ہیں اور وہ کمرے میں بند، آنکھوں سے فون اور کانوں میں ھینڈز فری لگائے مگن ہوتے ہیں، انھیں دنیا جہاں، ملنے جلنے، گھر میں دلچسپی کسی سے کوئی غرض نہیں رہتی، پھر والدین افسوس کرتے اور چیختے چلاتے نظرآتے ہیں۔
ایک سال سے 18 سال تک کے بچوں میں موبائل فونز کے استعمال سے ہونے والی خرابیاں تو بے شمار ہیں لیکن یہاں ہم صرف چند کا ہی ذکر کریں گے،اگر آپ کو صحیح لگے تو ابھی سے احتیاط شروع کردیں ایسا نہ ہوکے پچھتانے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے۔
والدین سے دوری اور سماجی تعلقات کا فقدان
بچوں میں موبائل فونز کے استعمال کا سب سے بڑا نقصان جو سامنے آرہا ہے کہ انھیں اب سماجی تعلقات، میل جول، بہن بھائیوں اور والدین سے بات کرنے کے بجائے موبائل فون میں گم رہنے مین زیادہ مزہ آتا ہے یہاں تک کے اگر آپ زبردستی انھیں کسی تقریب میں لے جائیں تو وہاں بھی وہ میل جول اور ایک دوسرے سے بات کرنے کے بجائے موبائل فون سے ہی خود کو مصروف رکھے نظرآئیں گے۔
فونز نے سماجی تعلقات اور تربیت میں جو رکاوٹ ڈالی ہے اس کا کوئی نعم البدل نہیں نتیجے میں جب یہی بچے بڑے ہوتے ہیں تو ان کی تربیت ویسی نہیں ہوپاتی جیسی معاشرے میں جینے کیلئے لازمی ہے اور یہ بچے اپنے خول میں بندہوکر معاشرے سے بالکل کٹ جاتے ہیں، اور نہ صرف خود بلکہ اپنے بیوی بچوں کیلئے بھی نقصان کا باعث بنتے ہوئے ان جیسے خشک اور تنہا انسانوں کا ایک سرکل بننا شروع ہوجاتا ہے جو معاشرے کی اصل شکل بگاڑ دیتا ہے۔
سماجی تعلقات سے تھوڑا آگے بڑھیں تو موبائل فونز کے استعمال سے بچے کی نشونما اور ذہن پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہین ان پر بھی ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔
ٹیومر کا خطرہ اور بینائی پر اثر
عام طور پر بچے موبائل فونز استعمال کرتے ہوئے اپنی سماعت کو مکمل فون پر ہی فوکس رکھتے ہیں یہ اس وقت اور خطرناک ہوجاتا ہے جب ان میں ہینڈز فری کے استعمال کی عادت پیدا ہوجاتی ہے، کانوں اور دماغ کے درمیان ایک باریک جھلی جو دماغ کو کسی بھی آواز کی کیفیت کی صورتحال سے آگاہ کرتی اور دماغ اسی لحاظ سے پورے جسم کو کمنڈ بھیجتا ہے یہ جھلی متاثر ہوکر پھٹ جاتی ہے اور اس کے بع د ایک ہلکا سا زخم کانوں اور دماغ کے درمیان بنتا ہے جو رفتہ رفتہ ایک ٹیومر کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔
ساتھ ہی مسلسل فون کے استعمال سے اس کی اسکرین سے نکلنے والی قاتل روشنی بینائی پر سخت بڑا اثر ڈالتی ہے جس سے بینائی کمزور یا بصارت سے محرومی کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
نتیجے میں بہرہ پن، دماغی خلل جیسے امرض پیدا ہوتے ہیں جن سے نجات کیلئے مہنگا علاج اور کامیابی کا تناسب آدھا آدھا ہوتا ہے۔
دماغی صلاحیتوں کا مفلوج ہوجانا، یا ذہنی وجسمانی نشونما کا متاثر ہونا
موبائل فونز استعمال کرنے والے بچے اس سے نکلنے والی مخصوص اور خطرناک لہروں کے قیدی بن جاتے ہیں یہ لہریں بچوں کی ذہنی وجسمانی نشونما میں رکاوٹیں ڈال کر اسے صرف ایک جانب سوچنے پر مجبور کردیتی ہیں یا اس کی جسمانی ساخت کو متاثر کرتی ہیں نتیجے میں وہ موبائل فون یا گیمز کے معاملے مین تو بہت تیز ہوجاتا ہے لیکن زندگی کے دیگر اہم شعبوں میں بات کرنے یا اپنی صلاحیتیں دکھانے کے قابل نہیں رہتا۔اور اس کا جسم اس کی عمر کے لحاظ سے نشونما نہیں پاتا۔
طبی ماہرین کے مطابق ایسے بچے قوت ارادری کی کمی، کمزوری، فیصلے کرنے کی طاقت میں کمی سمیت کئی دماغی امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں جس کا علاج ایک طویل اور صبر آزما طریقے سے ہی ممکن ہے اس میں بھی سو فیصد کامیابی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔
تعلیمی صلاحیت میں کمی اور امتحانات کے نتائج پر اثرات
موبائل فونز استعمال کرنے والے بچوں کی اکثریت چونکہ اپنا زیادہ تر وقت موبائل فون پر ہی لگاتی ہے اس لیئے ان کی توجہ اور یکسوئی درسی کتب پڑھنے اور اسے یاد رکھنے سے ہٹ جاتی ہے، اور جس وقت موبائل فون کی جگہ ان کے ہاتھوں میں کتاب ہو تب بھی ان کا ذہن موبائل فون کے کسی نہ کسی فیچر میں ہی الجھا ہوا ہوتا ہے۔
اس صورتحال کی وجہ سے بچوں کی تعلیمی صلاحیت پر انتہائی برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ان کی قابلیت و اہلیت دن بدن کم ہوتی جاتی ہے، یہ بذات خود اس لیئے زیادہ خطرنک ہے کہ اسی تعلیم اور ذہنی صلاحیت کی بنا پر بچے کو بڑے ہوکر عملی زندگی مین کام کرنے ہوتے ہیں، لیکن ان کی یہ قابلیت موبائل فونز کی وجہ سے انتہائی کم ہوجاتی ہے جو ان کی اہلیت پر اثر انداز ہوتی ہے۔
انٹرنیٹ پر فحش اور غیر موزوں مواد کی بھرمار
یہ سب جانتے ہین کہ آپ انٹرنیٹ کھولیں تو بے شمار فحش اور غیر موزوں چیزیں خود بخود سامنے آجاتی ہیں بچے ابتدا میں تو اس سے اجتناب کرتے ہیں لیکن رفتہ رفتہ ان میں تجسس بیدار ہوتا ہے اور جب وہ ان چیزوں کو دیکھتے ہیں اصل خطرے کا آغاز ہوجاتا ہے، نتیجے میں اس مواد کے ذریعے بچے معاشرتی بے راہ روی کا شکار ہوجاتے ہین اور وقت سے پہلے ہی ہارمونل تبدیلیوں کی وجہ سے بالغ ہوجاتے ہیں۔
ساتھ میں ایسی بہت سی باتیں جو انھیں کم سنی میں پتہ نہیں ہونی چاہیئں وہ نہ صرف اس سے آگاہ ہوجاتے ہیں بلکہ اس کے خطرناک اثرات کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔
ان اثرات اور خرابیوں سے کیسے بچا جائے۔۔؟؟
جو تفصیلات اوپر بیان کی گئیں موبائل فونز کے استعمال کے نتیجے میں ہونے والی خرابیاں اس سے کہیں زیادہو سکتی ہیں لیکن اس سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔
- سب سے پہلے تو اس بات کو یقینی بنائیں کہ بچوں کو موبائل فون کم ازکم 16 سال کی عمر سے پہلے کسی صورت نہیں دیا جائے گا، اگر اسکول یا کالج یا کسی جگہ جاتے ہوئے بچوں سے رابطے کا مسئلہ ہے تو صرف اتنے وقت کیلئے ایک عام سا فون جس میں صرف کال سننے اور کرنے کی سہولت ہو وہ بچے کو دیا جاسکتا ہے، ورنہ بچوں کیلئے موبائل فون کی عمر 16 سال سے کم نہ ہو۔
- 16 سال کی عمر میں بھی موبائل فون دینے کا مطلب یہ نہیں کہ بچہ محفوظ اور آپ فکروں سے آزاد ہوگئے، بلکہ آپ اس کیلئ وقت مقرر کریں اور ساتھ ہی نگاہ رکھیں کہ وہ فون پر کیا دیکھ رہا ہے کس طرح استعمال کررہا ہے اس کی دلچسپیاں کس چیز میں ہیں۔
- بچوں کے ساتھ ہی کچھ احتیاطی تدابیر والدین کو بھی اختیار کرنا ہوں گی۔
- کوشش کریں کسی ایسی جگہ نہ رہیں جس کے 400 میٹر کے فاصلے پر کوئی موبائل فون ٹاور لگا ہوا ہو، کیونکہ اس کی ریڈی ایشن نہ صرف بچوں بلکہ آپ کی صحت کیلئے بھی خطرناک ہیں۔
- دوران ڈرائیونگ موبائل فون کا استعمال نہ کریں یہ حادثات کا بھی سبب بن سکتا ہے اور اس کی وجہ سے آج کل کی الیکٹرانک کاروں کے نظام میں بھی خلل ہوسکتا ہے۔
- رات کو سوتے وقت موبائل فون سرہانے نہ رکھیں ، اگر ہوسکے تو فون آف کردیں بصورت دیگر اس کو کمرے کے دوسرے کونے پر رکھیں کیونکہ سوتے وقت آپ کا ذہن ہر قسم کی ریڈی ایشن قبول کرلیتا ہے اور موبائل فونز کی لہریں سب سے زیادہ نقصان دہ ہوتی ہیں۔
- رات کو گھر کا وائی فائی آف کردیں اس کی بھی لہریں پورے گھر کے مزاج، نیند اوردماغی صلاحیتوں کو متاثر کرتی ہیں۔
- چارجنگ کرتے وقت موبائل فون کو قطعی استعمال نہ کریں اس کی بیٹری پھٹنے کے چانسز 80 فیصد ہوتے ہیں جو آپ کو شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
- فقط موبائل فون ہی نہیں بچوں کے ٹی وی دیکھنے کے ٹائمنگس بھی طے کریں، بین الاقوامی معیار کے مطابق بچوں میں ٹی وی دیکھنے کا دورانیہ 3 گھنٹے سے کسی صورت زیادہ نہیں ہونا چاہیئے، ٹی وی کے کمرے میں روشنی کا نظام پورا ہو اور لیٹ کر ٹی وی دیکھنے سے بچوں کو منع کیا جائے۔
یہ کچھ عوام، اثرات اور بچاؤ کے اصول تحریری کیئے گئے ہیں یاد رکھیں بچوں کی تربیت اور ان کی حفاظت آپ کی ذمہ داری ہے، اور آپ کو اسے پورا کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، بچہ نہیں سمجھتا کہ اس کیلئے کیا اچھا کیا برا ہے، آپ تو سمجھتے ہیں۔ اور اگر آپ کی کوتاہی سے یہی بچہ کل بڑا ہوکر معاشرے کا ناسور بنے یا کسی قابل نہ رہے تو اس میں بچے کا قصور نہیں آپ کا قصور ہوگا۔