جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے 26 جون کو اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) بلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ جو اسلام آباد میں صبح 11 بجے منعقد کی جائے گی۔
ترجمان جے یو آئی (ف) کی جانب سے جاری بیان کے مطابق آل پارٹیز کانفرنس میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ سمیت اپوزیشن جماعتوں کے رہنما شرکت کریں گے، مولانا فضل الرحمان اے پی سی کی سربراہی کریں گے جبکہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف بھی شریک ہوں گے۔
اے پی سی میں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، جے یو آئی کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی بھی شریک ہوگی، کانفرنس میں چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی، بجٹ منظوری روکنے سے متعلق معاملات پر مشاورت ہوگی۔ اس کے علاوہ اے پی سی میں حکومت مخالف تحریک اور لاک ڈاؤن کے فیصلے پر بھی غور ہو گا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف سے مشاورت کے بعد اے پی سی بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔
دوسری جانب آل پارٹیز کانفرنس طلب کرنے کی باتیں تو کئی دن سے ہورہی تھیں لیکن سیاسی حلقے س بات پر حیران ہیں کہ کانفرنس کی صدارت اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کے لیڈران کے بجائے مولان فضل الرحمان کو کیوں دی گئی ہے۔۔!!
ملک کی سیاسی صورتحال ویسے تو کئی روز سے گرم ہے لیکن گذشتہ 4 سے 5 روز کے دوران اس میں کچھ ڈرامائی تبدیلیاں بھی دیکھنے کو ملی ہیں، جن میں پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کے اچانک پروڈکشن آڈر جاری ہوجانا، بجٹ اجلاس میں 3 روز تک شور مچانے والی اپوزیشن کی یکدم خاموشی، اپوزیشن کا پیش کردہ میثاق جمہوریت کی وزیراعظم کی جانب سے منظوری، اور سب سے اہم ترین بلاول و مریم نواز کی جانب سے اپنی اپنی پارٹی کی سینئر قیادت کے بجائے اپنے فیصلوں پر ڈٹ جانے جیسے معاملات شامل ہیں۔
اس ضمن میں سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ان تبدیلیوں اور اچانک ہونے والے کچھ معاملات نے اب اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس سے ہوا نکال دی ہے اور 26 جون کو صرف پارٹیوں کا اجتماع کھانے پینے تک ہی محدود رہے گا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اپوزیشن جماعتوں کی سینئر قیادت کو سب سے پہلے مریم نواز اور بلاول بھٹو کو اعتماد میں لینا ہوگا جو حکومت کے خلاف اپنا ہی ایجنڈا بنائے بیٹھے ہیں جبکہ آصف زرداری اور شہباز شریف کسی اور طرح سے حکومت سے بات کرنا چاہتے ہیں میثاق معیشت اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جسے مریم نواز نے مسترد کیا ۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر مریم و بلاول کو اعتماد میں نہ لیا گیا تو اے پی سی میں فیصلے جو بھی کیئے جائیں ان پر عملدرآمد کرانے میں تمام پارٹیوں کی سینئر و جونیئر قیادت میں رسہ کشی ضرور شروع ہوگی جو اپوزیشن اتحاد کو کمزور کرنے سے لے کر حکومت مخالف تحریک کی ناکامی کی صورت میں نکل سکتی ہے۔ اس تناظر میں زیادہ امکان یہی ظاہر کیا جارہا کہ حکومت کے خلاف اے پی سی کچھ زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوسکے گی اور اگر اپوزیشن کو اسے نتیجہ خیز بناناہے تو اس کیلئے دونوں بڑی پارٹیوں کی سینئر و جونیئر قیادت کو ایک پیج پر آنا ہوگا جو بظاہر ایک نہیں ہیں۔