اسلام آباد میں منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس کی خبریں تو سب نے دیکھی اور سن ہی لی ہیں لیکن اس میں ہونے والی کچھ اندرونی باتیں جب باہر آنا شروع ہوئیں تو اس نے پاکستانی سیاست کے بہت سے پہلو بھی اجاگر کردیئے ہیں۔
کانفرنس کے دوران ایک موقع پر جب مولانا فضل الرحمان کی جنب سے یہ بات آئی کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی ایک تقریر میں غزوہ بدر اور غزوہ احد کا جس طرح ذکر کیا ان کے خلاف توہین صحابہ کے تحت مہم چلائی جانی چاہیئے۔
ایسے میں اس پوری کانفرنس میں بلاول بھٹو کی صورت میں واحد ایک ہی رہنما تھا جن کا مؤقف بہت واضح ، دوٹوک اور مدلل تھا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ میں اپنے نانا، ماں اور ماموں کی قربانی دے چکا ہوں، اب نہ کسی کو مذہب کے نام پر سیاست کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے اور نہ ہی جمہوریت کو ڈیل ریل کرنے کے کسی منصوبے کا ساتھ دوں گا۔
بلاول بھٹو کے اس جملے نے گویا کانفرنس کے بیشتر شرکاء کی امیدوں اور ارمانوں پر ڈھیروں پانی ڈال دیا ، کچھ دیر کی خاموشی ہوئی اور پھر چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں۔
مذہب کو سیاست میں ڈال کر اپنے رستے سیدھے کرنے والے بہت سے لوگوں نے دبے الفاظ میں مخالفت کرنا چاہی لیکن وہ سب یہ جانتے تھے کہ ان کے دلائل کمزورہیں، یہ ایشو بنتا ہی نہیں جسے وہ بنانے جارہے ہیں ایسے میں اگر پیپلزپارٹی جیسی بڑی اپوزیشن جماعت سے اختلاف کیا تھا ان کی رہی سہی سیاست بھی ختم ہوجائے گی لہٰذا خاموشی میں ہی عافیت جانی اور یہ مسئلہ شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگیا۔
بلاول بھٹو کے اس دلیرنہ انداز کی جتنی تعریف کی جائے کم ہوگی کیونکہ کم ازکم اس طرح کا جملہ پاکستانی سیاست میں کبھی سننے میں نہیں آیا جب کوئی رہنما صاف کہہ دے کہ مذہب اور سیاست کو الگ رکھا جائے۔
"بلاول بھٹو کے اس مؤقف کو پاکستان کے تمام اہل فکر و دانش کی جانب سے پذیرائی ملی، خود حکومت کی جانب سے اس کی تعریف کی گئی۔ کیونکہ جب تک اس طرح کے سیاسی رہنما میدان میں آکر الزام تراشی کی سیاست اور مذہبی معاملات کو اپنے انداز میں موڑ کر دوسرے رخ پر لے جانے والوں کے خلاف دیوار نہیں بنیں گے پاکستان کیلئے ایک اسلامی اور فلاحی ریاست بننے کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا”۔
وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فوادچوہدری نے بھی بلاول بھٹو کے اس ٹھوس اور اصولی مؤقف پر اپنے ردعمل میں کہا کہ کہا پاکستان کےلیےسب سےبڑا خطرہ فتوے باز مولوی ہیں، تمام طبقہ ہائےفکر کو اس رویےکیخلاف جہاد کرنا چاہیے۔
فوادچوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان کےلیےسب سےبڑا خطرہ فتوے باز مولوی ہیں، ہمارے 75 فیصد مسائل کی وجہ علمائے سو ہیں، تمام طبقہ ہائےفکر کو اس رویےکیخلاف جہاد کرنا چاہیے، بلاول بھٹو اپنے موقف پر تعریف کے مستحق ہیں۔
پاکستان کی سیاست اس وقت اس امر کی متقاضی ہے کہ اسے اصولوں کی بنیاد پر استوار کیا جائے، جو صحیح ہےاسےصحیح سمجھا اورتسلیم کیا جائےجوغلط ہے اس کو بھرپور انداز میں مسترد کیا جائے، اگر یہ طریقہ نہیں اپنایا گیا تو پاکستان پر لگنے والے انتہاپسندی کے لیبل کو ہٹانا مشکل سے مشکل ہوتا چلا جائے گا۔
پاکستان کو اتحاد بین المسلیمن، باہمی یگانگت اور سیاسی معاملات میں دیانتداری کی ضرورت ہے ایسے میں ایسا کوئی بھی نان ایشو جس کی بنیاد ہی کوئی نہ ہو اس ملک و قوم کیلئے ناقابل تلافی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ پاکستان کے وہ علمائے حق جو کسی بھی سیاسی وابستگی اور اختلاف سے دور ہیں وہ بھی میدان میں آئیں اور لوگوں کو یہ بتائیں کہ تعمیر و ترقی کا اصل مفہوم کیا ہے اسلامی و فلاحی ریست کیسے قائم ہوسکتی ہے اگر علمائے حق نے اپنا یہ کردار ادا نہیں کیا تو پھر دیگر کو راستہ کھلا مل جائے گا۔