قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے 82 کھرب 38 ارب روپے کے مجموعی بجٹ کی شق وار منظوری کثرت رائے سے دیدی گئی جبکہ اپوزیشن کی کٹوتی کی تمام تحاریک ایوان نے مسترد کردیں۔
اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت بجٹ سیشن ہوا جس میں آئندہ مالی سال کے بجٹ پر اراکین نے ووٹنگ میں حصہ لیا، اسپیکر نے اعلان کر کے ایوان کو بتایا کہ بجٹ کی باقاعدہ منظوری ہوگئی۔
اسپیکر نے بجٹ کی منظوری کا اعلان کرنے کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس ہفتے کی صبح گیارہ بجے تک ملتوی کردیا۔ ایوان اس دن مالی سال کی ضمنی گرانٹس کی منظوری دے گا جس کے بعد بجٹ سیشن اختتام پذیر ہوگا۔ باقاعدہ منظوری اوراجلاس کے اختتام پر وزیر اعظم عمران خان پارلیمنٹ ہاؤس سے روانہ ہوگئے۔
بجٹ اجلاس مجومعی طور پر 65 گھنٹے سے زائد جاری رہا اور اپوزیشن کی جانب سے کسی صورت بجٹ منظور نہ ہونے دینے کے عزائم بھی پورے نہ ہوسکے۔
وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر کا بیان
بجٹ منظوری سے قبل قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر کا کہنا تھا کہ ہم 60 فیصد محصولات صوبوں کو دے دیتے ہیں، جب تک معیشت نقصان اٹھاتی رہے گی اپوزیشن کو ان کی غلطیاں یاد دلاتے رہیں گے۔
انھوں نے کہا کہ بجٹ بحث میں اپوزیشن جماعتوں کو 25 فیصد زیادہ وقت دیا گیا، ہم نے سخت حالات میں معیشت کو سنبھالا۔ آخری 2 سال میں تبدیلیاں کی گئی، معیشت کو دباؤ پر لایا گیا، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو ڈھائی سے بڑھا کر 20 ارب ڈالر تک لے گئے، تجارتی خسارہ جو دگنا تھا اس میں 4 ارب ڈالر کمی آئی۔ ہمارے دور میں ریڈی میڈ گارمنٹس کی مد میں 30 فیصد ترقی ہوئی۔ ہم 60 فیصد محصولات صوبوں کو دے دیتے ہیں۔
حماد اظہر نے کہا کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 4 فیصد کرنے جا رہے ہیں، تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ کھانے پینے کی اشیا پر ٹیکس لگایا۔ یہ تاثر بالکل غلط ہے، ہم نے گوشت اور آٹے پر ٹیکس لگا دیا، ہم نے گھی پر ایک فیصد ٹیکس کو ملا کر سیلز ٹیکس کو 17 فیصد کیا۔ چینی پر ٹیکس لگایا تو کہتے ہیں شوگر ملز کے جھانسے میں آگئے۔ ہم نے چینی پر ساڑھے 3 فیصد ٹیکس لگایا۔
وفاقی حکومت کا مؤقف
دوسری جانب معاونِ خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے بجٹ منظوری کے بعد کہا کہ اپوزیشن کی گیدڑبھبکیوں کےباجود بجٹ منظورہوا، اتحادیوں کےساتھ ملکربجٹ بھرپوراکثریت سے منظور کرایا گیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی اوردفاع کےساتھ جڑےبجٹ کی منظوری خوش آئندہے، بجٹ منظوری میں تعاون پر اتحادی جماعتوں کےمشکورہیں، پاکستانی تاریخ میں پہلی بار بجٹ اجلاس 70 گھنٹے سے زائد جاری رہا۔
معاونِ خصوصی نے کہا کہ اپوزیشن نےبجٹ کی منظوری میں رکاوٹ بننےکیلئےتمام حربےآزمائے تاہم ایوان میں موجود وزیر اعظم کے کھلاڑیوں نے حزبِ اختلاف کی ہر چال کو ناکام بنایا، اپوزیشن کےآئینی اورقانونی کردارکوتسلیم کرتےہیں، بجٹ منظوری عوامی نمائندوں کاعمران خان کے وژن پربھرپوراعتمادکا مظہرہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ حکومت نے پہلےمرحلےمیں اپوزیشن کو چاروں شانےچت کردیا ہے،چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف مجوزہ تحریک کا انجام بھی اسی طرح کا ہوگا، تمام اکائیوں کو تحفظ دینےکا نام سینیٹ آف پاکستان ہے، صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک وفاق پر حملے کے مترادف ہے، چیئرمین سینیٹ کو تحفظ دینے کے لیے حکومت تمام آئینی اقدامات کرے گی۔
پیپلز پارٹی کا ردعمل
بجٹ سیشن کے بعد میڈیا سے گفتگو میں بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ آج قومی اسمبلی میں تاریخ کی بدترین دھاندلی دیکھی ہے جس طرح نالائق اور دھاندلی زدہ حکومت نے معاشی خودکشی کا بجٹ زبردستی منظور کیا ہے، ملک کی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا، دھاندلی کرکے دو بلز پاس کرائے گئے۔
پی پی چیئرمین نے کہا کہ بجٹ میں سندھ پر حملہ کیا گیا اور نالائق و نااہل حکومت نے تھرکول پر 15 فیصد ٹیکس لگا دیا، عوام دشمن حکومت عوام کا خون چوس رہی ہے اور کسانوں اور مزدوروں کا معاشی قتل کیا جارہا ہے۔
پی پی چیئرمین نے عوام سے اپیل کی کہ وہ اس حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، ہم کب تک یہ ظلم برداشت کریں گے؟ اس ظلم کے خلاف نکل رہا ہوں اور کل گوجرخان میں جلسہ ہوگا جس میں پنجاب کے عوام کو بتاؤں گا کہ کس طرح حکومت نے ان کے حق پر ڈاکا ڈالا ہے اور عوام کی زندگی عذاب بنائی جارہی ہے۔
چیئرمین سینیٹ سے متعلق عدم اعتماد کی تحریک پر پی پی میں ٹوٹ پھوٹ کے سوال پر بلاول کا کہنا ہے کہ حکومت کو کہوں گا کہ جب الیکشن ہوں گے تو دیکھیں گے لیکن اپنے ارکان اور اتحادیوں پر نظر دوڑائیں وہاں کچھ ایسا نہ ہو