اصل خبر سے قبل ایک پاکستانی عادت پر ضرور روشنی ڈالیں گے کہ 14 اگست 1947 کو انگریزوں سے آزادی کا مزہ ہم آج بھی اس حد تک لے رہے ہیں کہ قانون کی پاسداری کرنے سے بھی آزاد ہوچکے ہیں۔
کچرا پھیلانا، جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنا، سگنل توڑنا تو چھوڑیں بڑی بڑی کرپشن کرکے سینہ ٹھوک کے خود کو مظلوم بتانا اب ہمارا وطیرہ بن چکا ہے یوں کہہ لیں کہ پاکستان تو ان تمام لوگوں کیلئے جنت کا درجہ رکھتا ہے ہم تو جرم کرکے ملزم بننے پر بھی واویلا کردیتے ہیں مجرم بننا یا کہلانا تو دور کی بات ہے۔
لیکن دنیا کے بیشتر ممالک ایسے ہیں جہاں آپ کی معمولی غفلت اور کوتاہی کی سزا بھی ہے اور سختی سے اس پر عمل بھی کرایا جاتا ہے اور یہ سزائیں اس لیئے دی جاتی ہے کہ آپ بھی صحیح ہوجائیں ساتھ ہی سننےاوردیکھنے والا بھی احتیاط شروع کردے۔اور معاشرے کی تشکیل قانون پسندی کے تحت ہوتی رہے۔
ایسا ہی قانون متحدہ عرب امارات میں نافذ کیا گیا ہے جو بظاہر تو ہمارے ہاں معمولی غفلت کہلاتا ہے اور شاید اسے کوئی غفلت بھی نہیں کہتا یہ تو ہماری شان بے نیازی ہوتی ہے لیکن عرب امارت میں بچوں کو گاڑی میں بھول جانے کی معمولی کوتاہی پر 10 لاکھ درہم جرمانہ اور 10 سال تک قید کی سزا کا قانون بنادیا گیا ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق والدین اور اسکول بس ڈرائیور کی جانب سے گاڑی میں بچوں کو بھول جانے کے سبب بچوں کی اموات ہوئی تھیں جس کے بعد امارات میں چائلڈ رائٹس قانون کے تحت سزا اور جرمانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
شارجہ میں چند روز قبل والد کی جانب سے دو سالہ بچے کو گاڑی میں بھولنے کے سبب معصوم بچہ زندگی و موت کی کشمکش میں اسپتال میں زیر علاج ہے،رپورٹ کے مطابق والد بچے کو لے کر جمعہ کی نماز پڑھنے گئے اور جب واپس آئے تو گاڑی لاک کرکے گھر کے اندر چلے گئے چند گھنٹے بعد جب انہیں احساس ہوا کہ بچہ موجود نہیں ہے تو وہ گاڑی کی جانب سے روانہ ہوئے، معصوم بچے کو بیہوشی کی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا۔
پولیس کے مطابق بچے کو القاسم اسپتال میں طبی امداد دی جارہی ہے لیکن اس کی حالت تشویش ناک ہے، واقعے کی تحقیقات کا آغاز کردیا ہے بظاہر اس میں والد کی لاپرواہی ظاہر ہورہی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ دبئی کی اسکول بس میں بند ہوجانے سے ایک بچہ زندگی کی بازی ہار گیا تھا، فرحان فیصل اسلامیہ مدرسے میں تحفیظ القرآن کی تعلیم حاصل کررہا تھا بچے کی موت بس میں شدید حبس کے باعث ہوئی۔
اکتوبر 2014 میں بھی ابوظبی میں 4 سالہ بھارتی بچی اسکول بس کا دروازہ بند ہونے کے باعث زندگی کی بازی ہار گئی تھی۔
معمولی غفلت پر سخت سزاؤں کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ معاشرے کی درست سمت تشکیل ہوتی رہتی ہے، جبکہ پاکستان میں اگر ٹریفک پولیس موٹر سائیکل سواروں کو ہیلمٹ پہننے کی پابندی کی ہدایت کرے تو لوگ غربت و افلاس اور مجبوریوں کے ذکر میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں۔
ایسا نہیں کہ پاکستانی عوام قانون کی پاسداری کرنا جانتے نہیں یا کر نہیں سکتے بلکہ حقیقیت یہ ہے کہ پاکستان میں انھیں اتنی نرمیاں حاصل ہیں جن کی وجہ سے لوگوں نے قانون شکنی کو اپنا بنیادی حق سمجھنا شروع کردیا ہے۔اور قانون صرف ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔
اس خبر و نظر کے آخر میں ایک واقعہ بیان کرتے چلیں جو راقم کے ساتھ 2005 میں پیش آیا۔
کراچی ایئرپورٹ سے دبئی کی روانگی کیلئے ہم لاؤنج میں بیٹھے تھے کچھ منٹوں بعد بورڈنگ شروع ہونی تھی لاؤنج صاف ستھرا اور جگہ جگہ ڈسٹ بن رکھے تھے، ہمارے سامنے والی سیٹ پر ایک صاحب بیٹھے تھے وہ بھی اسی فلائٹ کے مسافر تھے انھوں نے جیب سے ایک سپاری کا پیکٹ نکالا اسے پھاڑا اور اندر کا مال منہ میں ڈال کر سپاری کا ریپر وہیں فرش پر پھینک دیا۔
ہم یہ سب دیکھ رہے تھے غصہ بہت آیا لیکن اپنے لہجے اورانداز کو قابو کرتے ہوئے ان سے کہا محترم یہ ڈسٹ بن پڑا ہے کم ازکم ریپراس میں ڈال دیں فرش کیوں گندہ کررہے ہیں، ان صاحب نے ہنستے ہوئے جواب دیا ارے چھوڑو بھائی اپنا ملک ہے سب چلتا ہے۔
تھوڑی دیر بعد بورڈنگ کا اعلان ہوا جہاز میں بیٹھ کراپنی منزل پہنچے، دبئی ایئرپورٹ پر اترے اور امیگریشن کاؤنٹر تک کے طویل کوریڈورکو پیدل طے کرتے ہوئے سب ہی مسافر اس جانب رواں دواں تھے وہی صاحب ہم سے کچھ قدم آگے چل رہے تھے، ہم نے دیکھا انھوں نے ایک اور سپاری کا پیکٹ جیب سے نکالا، پھاڑا اندر کا مال منہ میں اور ریپر پھینکنے کے بجائے اپنی جیب میں رکھ لیا۔
ہم فوری آگے بڑھے اور ان صاحب سے کہا کہ کراچی ایئرپورٹ پر تو آپ نے ریپر فرش پر پھینک دیا تھا یہاں جیب میں رکھ لیا، کہنے لگے بھیا وہ اپنا ملک تھا یہ غیر ملک ہے فورا جرمانہ کردیں گے ممکن ہے ڈی پورٹ بھی کردیں، یہ کہتے ہوئے وہ تو آگے بڑھ گئے اور ہم وہیں کھڑے سوچتے رہ گئے کہ اپنے ملک میں ایسا کب ہوگا کہ لوگ جرم کرتے، کوتاہی کرتے، غفلت کرتے اسی طرح ڈریں گے۔۔۔؟؟
ہمیں تو نہیں پتہ اگر آپ کو پتہ ہے تو ضرور بتاایئے گا ۔۔۔!!!