چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے یہ ریمارکس آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزام میں پشاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے سابق سربراہ ظاہرشاہ کی سزا کیخلاف اپیل پر سماعت کے دوران دیئے ، جسٹس گلزار احمد اور جسٹس عظمت سعید بھی بینچ کا حصہ تھے۔ عدالت نے ظاہر شاہ پر 3سال قید ،2 کروڑ 15لاکھ جرمانہ اور جائیداد ضبطگی کا فیصلہ برقرار رکھا۔
ظاہرشاہ کے وکیل نے کہا کہ احتساب عدالت نےجائیدادضبط کرنےکاحکم نہیں دیا اورہائی کورٹ نے نیب اپیل کے بغیر جائیداد ضبط کرنے کا حکم دیا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کرپشن کے مقدمےمیں 3سال کی سزامذاق ہے، چھڑی مارنے کے جرم میں تین سال سزا دی جاتی ہے، بطور سرکاری ملازم ظاہرشاہ نے کروڑوں کی جائیداد کیسے بنالی۔۔؟؟
چیف جسٹس نے کہاکہ ملزم کی تنخواہ اس وقت 1275 روپے تھی پھر کروڑوں کی جائیداد کیسے اور کہاں سے آئی ؟ اس وقت گھر کا کرایہ بھی 3 سو روپے ہو گا، 3 سال کی سزاکرپشن کےمقدمےمیں بہت کم ہے، سوچ رہے ہیں کیوں نہ سزا بڑھا دیں۔
ملزم کے وکیل نے بتایا کہ ظاہر شاہ نے 1974 میں 4 گھر فروخت کیے ان سے جو رقم ملی اس سے جائیداد بنائی، چار گھر ظاہر شاہ نے سروس سے پہلے 1974 میں خریدے تھے۔ یہ ساری جائیدادیں ظاہر شاہ کے سروس میں آنے سے پہلے کی ہیں ، وہ 1975 میں سروس میں آیا۔
اس موقع پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اثاثے 1988میں بنائےگئے،وسائل 1998 کے ہیں، ظاہر شاہ نے کروڑوں کے اثاثے بنالیے، جس پر وکیل نے کہا میں سزا کے خلاف موکل کی اپیل واپس لیتا ہوں۔
جس پر نیب کےوکیل نیب نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے ملزم سید ظاہر شاہ کو 3 سال قید اور دو کروڑ 15 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی، ہائی کورٹ نے ملزم کی تین سال قید کو برقرار رکھا اور جرمانہ کم کر کے ایک کروڑ 15 لاکھ کر دیا۔
چند روز قبل چیف جسٹس آصف کھوسہ نے دوٹوک الفاظ میں واضح کیا تھا کرپشن کی رقم موت کے بعد بھی جمع کرانی ہوگی اور مرحوم ڈی ایس پی جمیل اختر اور اہلیہ کی اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے خرد برد کیےگئے تین کروڑ روپےادا کرنے کا حکم دیا تھا۔