اس بات پر ناراض ہونے سے پہلے یہ ذرا دیکھ لیں کہ آیا دونوں رہنماؤں کا مزاج ایک جیسا بھی ہے یا نہیں پھر یہ بات کہنے والے کو سب سے پہلے پکڑیں جس نے کہا کہ کہ عمران خان کا مزاج امریکی صدر ٹرمپ جیسا ہے۔
یہاں ذرا ہلکا پھلکا موازنہ کیئے لیتے ہیں باقی اندر کا حال تو اندر والے جانیں ۔ وزیراعظم پاکستان کی ایک خوبی جس کا سب تذکرہ کرتے ہیں وہ یہ کہ بندہ جیسا بھی ہو کرپٹ نہیں ہے اسی لیئے کرپشن کو بہت ناپسند کرتا ہے۔ ان کے مقابلے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ابتداء ہی کرپشن سے ہوئی اور ان پر تاحال مختلف مراحل پر کرپشن کرنے اور کرپشن کو سپورٹ کرنے کے الزامات لگ رہے ہیں۔
عمران خان اپنے مخالفین کیلئے نرم رویہ نہیں رکھتے، اس معاملے میں ٹرمپ اور عمران ایک کہے جاسکتے ہیں کہ اپنے مخالفین کےخلاف وہ ہر حد تک جانے کو تیار رہتے ہیں۔
تنقید نگار کہتے ہیں کہ عمران خان کے پاس حکومت چلانے کیلئے کوئی پالیسی کوئی حکمت عملی نہیں ہے اسی لیئے بہت سے فیصلے کیئے گئے پھر انھیں واپس لیا گیا، اسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی پالیسی ہے کہ کہ کوئی پالیسی نہ ہو جو من میں آئے کہہ دو جو دل چاہے کردو باقی بعد میں دیکھی جائے گی۔
عمران خان کی تین شادیاں ہوئی ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ صنف مخالف ان کی شخصیت کی کشش کی وجہ سے کھنچی چلی آتی تھیں، ان کے مقابلے میں ٹرمپ کی اب تک ایک ہی شادی منظر عام پر آئی ہے تاہم ان کے عاشقانہ مزاج اور دل پھینک اسٹائل سے آج تک یہی لگتا ہے کہ وہ سینکڑوں معاشقے لڑا چکے ہیں اور اگر ممکن ہوتا تو ٹرمپ 10، 12 شادیاں بھی رچا لیتے۔
ٹرمپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت سخت مزاج، اکھڑ دماغ اور ضدی ہیں جبکہ عمران خان کے قریبی ساتھیوں کے مطابق وہ ضدی ضرور ہیں لیکن اسولوں کی بنیاد پر اور سخت مزاج یا اکھڑ بالکل نہیں ہیں۔
خان اور ٹرمپ کے موازنے کی بات اگرچہ خود امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم بھی گذشتہ ماہ دورہ پاکستان میں کہہ چکے ہیں ان کے مطابق عمران خان اور ٹرمپ کی شخصیات ایک جیسی ہی ہیں دونوں ہی کچھ کر گزرنے کیلئے ہمت و عزم کے ساتھ ایک جیسا مزاج رکھتے ہیں، امریکی سینیٹر نے تو یہاں تک کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ پر زور دیں گے کہ وہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان سے لازمی ملاقات کریں کیونکہ یہی وہ شخصیت ہے جو افغان امن کیلئے امریکی کوششوں کو کامیاب کروا سکتی ہے۔
لیکن امریکی سینیٹر کے عمران اور ٹرمپ کو ایک جیسا کہنے میں صاف ظاہر ہے کہ وہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی خوشامد کرکے اپنا مطلب نکالنا چاہتے ہیں ورنہ صحیح معنوں میں کسی رہنما کی کسی سے مماثلت اور مزاج کا موازنہ ان امور سے نہیں بلکہ ان کی سوجھ بوجھ اور سیاسی حکمت عملی کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اور اس لحاظ سے عمران خان ٹرمپ سے کہیں زیادہ آگے ہیں۔
پھر یہ بھی سچ ہے کہ کہنے والے اور مزاج ملانے والے جب کہنا شروع کرتے ہیں تو نہ جانے کیا کیا الا بلا کہنے لگتے ہیں ورنہ سچ تو یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی شخصیت کم از کم ٹرمپ جیسی نہیں ہوسکتی کیونکہ ٹرمپ ایک اکھڑ مزاج اور دنیا پر اپنی حکمرانی کے خواب دیکھنے میں مگن اچھے کو برا برے کو اچھا بنانے میں مصروف ہیں جبکہ عمراں خان کو اپنے ملک اور قوم کا درد ہے وہ اس ملک کو آگے لے جانے کیلئے سخت محنت کے ساتھ غیر معروف لیکن اہم ترین فیصلے کررہے ہیں۔
ویسے بھی اس طرح کے موازنے کرتے جائیں تو بہت سی باتیں نکل آئیں گی لیکن یہاں عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کے مزاج کو ایک جیسا کہنے والے کوئی اور نہیں شیخ رشید احمد ہیں جنھوں نے یہ انکشاف کرکے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ وہ اپنے خان کو بہت حد تک جانتے ہیں لیکن وہ امریکی صدر ٹرمپ کے مزاج سے کتنا واقف ہیں یہ شاید وہ خود بھی نہیں جانتے ۔
اسی لیئے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے جب شیخ رشید سے کسی نے وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکہ اور ٹرمپ سے ملاقات کے بارے میں سوال کیا تو وزیر ریلوے نے کہا عمران خان ٹرمپ سے ملنے جارہے ہیں، اللہ خیر کرے، مزاج ایک جیسا ہے۔ اب شیخ ساحب کا یہ برجستہ جواب کہیں ان کی کوئی نئی ٹرین نہ ثابت ہو جو کچھ دن میں ہی لڑکھراتی، کھڑکھراتی ان تک واپس آجئے اور پھر انھیں وضاحت کیلئے کوئی دوسری پریس کانفرنس کرنا پڑے۔