سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قومی صحت نے ریسٹورنٹس میں شیشہ پینے پر پابندی اٹھانے اور مناسب قانون سازی کی سفارش کی ہے اور مؤقف اختیار کیا ہے کہ ہم پابندی کے حق میں نہیں جبکہ کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر میاں عتیق شیخ کا کہنا ہے کہ لندن میں ہمارے کرکٹرز شیشہ پیتے رہ گئے اور ہم میچ ہار گئے۔
میاں عتیق کہتے ہیں کہ افسوس ہے کہ شیشے پر پابندی لگوانے کیلئے میں نے سب سے زیادہ شور ڈالا لیکن ریسٹورنٹس میں شیشے پر پابندی لگی تو شیشہ گھروں میں آگیا اس لیئے بہتر ہے کہ ریسٹورنٹس میں شیشہ پر عائد پابندی اٹھالی جائے، ترقی یافتہ ممالک میں شیشے پرپابندی نہیں ہے۔
کمیٹی کے ایک رکن منظور کاکڑ نے کہا کہ پہلے ایک فرد ریسٹورنٹ جا کر شیشہ پیتا تھا اب سارا گھر پیتا ہے، وزرات صحت کے حکام بولے کہ وزارت بھی پابندی کے حق میں نہیں ہے، پابندی سپریم کورٹ کے حکم پر لگی۔
دوران اجلاس سرعام دکانوں پر سگریٹ، پان کی فروخت پر پابندی کے معاملے پر بات کرتے ہوئے کمیٹی ممبران نے کہا کہ اس صنعت کے ساتھ 7 لاکھ افراد وابستہ ہیں، پابندیوں سے بے روزگاری بڑھے گی جس کے بعد کمیٹی نے اس معاملے پر تفصیلات طلب کر لیں۔
شیشہ کیفے پر پابندی کب اور کیسے لگی ۔۔۔؟؟
5 نومبر 2015 کو پاکستان کے سپریم کورٹ نے چاروں صوبائی حکومتوں کو ’شیشہ کیفے‘ کے خلاف فوری کریک ڈاؤن کرنے کا حکم دیا، عدالت کا کہنا تھا کہ ان میں سے متعدد مقامات پر منشیات بھی فروخت کی جارہی ہے لیکن انتظامیہ ان کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں ہے۔
چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ملک بھر میں قائم ہونے والے شیشہ مراکز کے خلاف از خود نوٹس کی سماعت کی اور چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرل سے یہ بھی استفسار کیا کہ پبلک مقامات پر سگریٹ نوشی پر پابندی سے متعلق حکومت نے ایک آرڈر جاری کیا تھا کیا اس حکم پر عمل درآمد ہوسکا ہے۔۔؟؟
عدالت نے اس موقع پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھاکہ بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پبلک مقامات پر مخص سگریٹ نوشی کی ممنانعت کے بورڈ آویزاں کرکے معاملے کو نمٹا دیا گیا ہے، عدالت کا کہنا تھا کہ نوجوان نسل کو نشے کا عادی بنایا جارہا ہے اور ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جارہی۔
اس کے بعد 22 ستمبر 2016 میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے شیشہ نوشی از خود کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ شیشہ پینے پر پابندی کےعدالتی حکم کے بعد کرپٹ عناصر کی چاندی ہوگئی ہے،انہوں نے مزید کہا کہ عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ ہوا، صرف یہ ہوا کہ اسلام آباد میں پہلے شیشہ کلبوں سے ایک لاکھ روپے ماہانہ لیے جارہے تھے ا وراب پانچ لاکھ روپے ماہانہ لیے جا رہے ہیں۔
پھر رواں برس 9 جون کو سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو شیشے کی درآمد پرپابندی سے متعلق اقدامات کیلئے ایک ماہ کاوقت د یتے ہوئے وفاقی اورصوبائی حکومتوں سے شیشہ نوشی پر پابندی سے متعلق قانون سازی پررپورٹ طلب کی ۔
جسٹس مقبول باقر نے شیشہ نوشی ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران یہ ریمارکس دیے کہ حکومت کوشیشے کی درآمد میں پابندی کیلئے کتنا وقت چاہئے ؟؟حکومت جتنی تاخیر کرے گی ، اتنے لوگ ناسور سے مرجائیں گے۔
عدالتی ریمارکس کے ٹھیک ایک ماہ بعد قائم کمیٹی برائے صحت کی جانب سے شیشہ کیفے پر پابندی کے خاتمے کا عندیہ دیا جارہا ہے، جبکہ سپریم کورٹ میں یہ مقدمہ ابھی زیر سماعت ہے، ایسی صورتحال میں معاملہ پیچیدہ صورتحال اختیار کرسکتا ہے۔
شیشہ اصل میں ہے کیا۔۔؟؟
برسوں پہلے اور آج کہیں کہیں پاکستان کے دیہاتوں میں مقبول حُقہ شہروں میں اپنی نئی شکل یعنی شیشے کی صورت میں اتنا تیزی سے پھیلتا چلا گیا کہ معلوم ہی نہ ہوسکا یہ کس کی کارستانی ہے، اسی کی ایک شکل کچھ عرب ممالک میں بھی برسوں سے استعمال کی جاتی ہے۔
گاؤں دیہات میں تو خالص تمباکو کے ساتھ دھکتے کوئلے اور چلم میں کچھ پانی کی آمیزش سے حقہ تیار کی جاتا جسے ایک لمبے پائپ کے ذریعے غٹ غٹا غٹ کی آوازیں نکالتے گاؤں کے بوڑھے لمبا کش لے کر فضا میں دھواں بکھیر دیتے تھے، جو کسی کو نااگوار لگتا تو کسی کیلئے یہ زندگی کی پہچان تھی کہ ان کے بزرگ حقہ پی رہے ہیں یعنی ابھی سانس لے رہے ہیں۔
شہروں میں اسی حقے کو جدید شکل میں کیمیکل ملے تمباکو اور اس کے ساتھ کچھ پھلوں کے زائقے کی خوشبو ملا کر نوجوانوں کو اس کی لت لگائی گئی جو رفتہ رفتہ پھیلتے ہوئے خواتین تک بھی جاپہنچی، بات یہیں تک نہین رکی بلکہ اس کیلئے باقاعدہ شیشہ کیفے کھل گئے جہں تمباکو کے ساتھ کچھ منشیات کا استعمال بھی چوری چھپے کیا جانے لگا۔
اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ حقہ اور شیشہ ایک ہی چیز ہے بس تھوڑا ڈیزائن کا فرق ہے لیکن وہ ہی بھول جاتے ہین کہ گاؤں کے 40 سال 50 سال کے ادھیڑ اور ان سے بڑی عمر کے بزرگوں کا اسٹیمینا آج کے 18 سال کے نوجوان سے زیادہ تھا وہ حقہ پیتے تھے تو ساتھ میں خالص دودھ دہی اور مکھن کے استعمال کے ساتھ سبزیاں بھی کھاتے تھے اور جان توڑ محنت بھی کرتے تھے اور ان کے بزرگوں نے اپنی جوانی میں وہ شہ زوریاں دکھائیں جن کی مثال نہیں تھی، اس کے مقابلے میں شہروں میں استعمال ہونے والا شیشہ حقہ نہیں بلکہ اس کی بگڑی ہوئی خطرناک شکل ہے جسے پینے والے نوجوان ویسے ہی 4 قدم چلیں تو ہانپ جائیں ان کا مقابلہ گاؤں کے حقہ پینے والوں کے ساتھ کسی طور بنتا ہی نہیں۔
لیکن کہتے ہیں کہ برائی جلدی پھیلتی ہے، اس شیشے نے فیشن کی صورت اختیار کرلی اور یہ مشرقِ وسطی سے لے کر یورپ تک نوجوانوں میں پھیل گیا، اور اب معاملہ یہ ہے کہ دنیا بھر مین اس کے مخالفین اور ھامیوں کی تعداد تقریبا برابر ہے اور دنیا بھر میں اس کے بند کرنے یا اس کی اجازت دینے پر بحث ہوتی رہتی ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان ممالک کے مقابلے میں پاکستان کی بات اس لحاظ سے دوسری ہے کہ ہم برائی میں جلدی پڑبھی جاتے ہیں اور پھر اس کی انتہا تک جاکر اپنا سب کچھ گنوا دیتے ہیں۔
ہر شغل کو کھیل اور فیشن کے نام پر بے دریغ استعمال کرتے ہوئے اپنی تباہی کا سامان کرتے ہیں، ایسی صورت میں بہتر ہے کہ پاکستان میں شیشہ کی وباء نہ ہی دوبارہ پھیلے تو بہتر ہے اور جو لوگ اس کے حامی ہیں وہ پہلے اسے پینے والوں کی تربیت کا اہتمام کریں۔
جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ شیشہ پینے پر سے پابندی کا خاتمہ کردینا چاہیئے کیونکہ لوگ اب بھی چوری چھپے اس کا استعمال کررہے ہیں بلکہ کئی لوگ تو شوق کی اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ وہ اسے گھر تک لے آئے ہیں اور بچوں سے بڑے تک سب مختلف ذائقوں کے ساتھ اس کا استعمال کرتے ہیں۔
دو مختلف آراء تو آپ کے سامنے آگئیں اب آپ بتائیں کیا کہتے ہیں کہ کیا شیشہ پینے پر عائد پابندی کا خاتمہ ہونا چاہیئے یا سپریم کورٹ کی جانب سے پابندی کا احسن اقدام برقرار رہنا چاہیئے۔۔۔؟؟