فرانسیسی عوام ہر سال 14 جولائی کو اپنا قومی دن منا تےہیں، اس دن کو تاریخ میں "یوم ِ باستیل” کے نام سے جانا جاتا ہے ،اس دن کو منانے کے پیچھے فرانسیسی عوام کی جدو جہد کی ایک الگ ہی داستان ہے۔
تاریخی حوالہ جات کو دیکھیں تو کہیں پر انقلاب فرانس کی وجوہات کچھ لکھی ہیں تو کہیں کسی نے س کیلئے کچھ اور عوامل کو سبب بتایا ہے لیکن لب لباب تمام تواریخ میں وہی ہے کہ امراء اور پادریوں کی بے جا بندشوں اور عوام کی فلاح سے منہ موڑنے پر فرانس کی بادشاہت کو عوامی غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑا، نتیجے میں قتل و غارت گری، لوٹ مار اور لاقانونیت نے کئی برسوں تک اپنا اثر جمائے رکھا جو نپولین بونا پارٹ کی آمد کے بعد ختم ہوا اور جدید فرانس کی ابتداء ممکن ہوسکی۔
کیا انقلاب کی وجہ اقتصادی بدحالی تھی۔۔۔؟؟
عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ انقلاب فرانس کا باعث اقتصادی بدحالی تھی مگر کارلائل اوردوسرے مورخین اس نظریے سے اتفاق نہیں رکھتے اُن کا خیال ہے کہ فرانس کے باشندوں کی مالی حالت دوسرے ممالک کے باشندوں سے کسی طرح بری نہ تھی۔ گو اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ جنگ آزادی امریکا میں امریکا کی اعانت کرنے سے حکومت فرانس کا اپنا خزانہ خالی ہو گیا تھا۔ اسی طرح یہ نظریہ بھی قطعاً غلط ہے کہ انقلاب اس لیے برپا ہوا کہ بادشاہ فرانس لوئی شانز دہم اپنے ملک اور رعایا کا بہی خواہ نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ لوئی پانزدہم سے کہیں بہتر حکمران تھا۔ مؤرخین کی رائے کے مطابق عوام کا خیال تھا کہ لوئی کے عہد میں فرانس کو پھر وہ رعب و دبدبہ حاصل ہوگا جو رشلویا لوئی چہارم کے ادوار میں حاصل تھا۔
مگر اُن کی یہ خواہش آئندہ توقعات بہت جلد مایوسی میں تبدیل ہوگئیں۔ لوئی اور اس کی حکومت سرکاری خزانے کے دیوالیہ پن کو دور کرنے سے قاصر رہی۔ بلکہ جنگ آزادی امریکا نے فرانس کی مالی حالت اور بھی ابتر کردی۔ اس جنگ کا ایک اور اثر یہ بھی ہوا کہ امریکا سے واپس آئے ہوئے فرانسیسی سپاہیوں نے جمہوریت، مساوات وغیرہ کے نظریات سے دیہی طبقے کو روشناس کرایا۔ شہری طبقہ روسو اور والیٹر جیسے ادیبوں اور مفکروں کی بدولت ان نظریات سے پہلے ہی متعارف تھا اس لیے 1787ء میں ذمے دارحکومت کے حق میں تحریک کا چل نکلنا غیر قدرتی نہ تھا، اور یہی تحریک آگے چل کر انقلاب کا باعث بنی۔
ایک اور رائے یا تاثر یہ بھی ہے کہ برطانیہ سے امریکہ کی جنگ آزادی میں فرانس نے کھل کرامریکہ کی مدد کی جس کے نتیجے میں بالاخر 1776ء میں امریکہ آزاد ہوگیا لیکن یہی بے جا حمایت فرانس میں بھی تبدیلی کا پیش خیمہ بنی- فرانس کی اشرافیہ اور کلیسا نے آپس میں گٹھ جوڑ کررکھا تھا اور تمام زمینوں پر قابض تھے- خود ٹیکس نہیں دیتے تھے پرآئے روز عوام پرنیا ٹیکس لگا دیتے اور قانون کا یہ حال تھا کہ ’پروانہ گرفتاری‘ پر شخص کا نام ‘ مدت اور قید خانہ لکھ کر پولیس کے حوالے کر دیا جاتا – لوگوں کوبغیر وجہ بتائے گرفتار کرکے قید کر لیا جاتا۔
جنگِ آزادی میں امریکہ کی مدد کرنے کے سبب فرانس کا خزانہ خالی ہو چکا تھا مہنگائی آسمان کو چھو رہی تھی غریب غریب تر اور اشراف امیر ترین ہوتے جا رہے تھے لہذا فیصلہ کیا گیا عوام پرمزید ٹیکس لگائے جائیں۔
5 مئی 1789 کو ٹیکس کے نفاذ کے لئے پارلیمان کا اجلاس بلایا گیا- پارلیمان کے 3 حصے تھے ایک حصہ امرا ،دوسرا حصہ کلیسا اور تیسرا حصہ عوام کا تھا جو 97 فیصد تھا – عوام کے نمائندوں کے اختیارات محدود تھے وہ اشرافیہ سے دبے دبے رہتے تھے ، مگر آج ان کی آوازیں اونچی ہونے لگیں انہوں نے ٹیکس کے نفاذ کے خلاف بھرپور احتجاج کیا مگر بادشاہ نے ان کا اختلاف ماننے سے انکار کردیا تو جون 1789 میں عوام کے نمائندوں نے اپنا نام قومی اسمبلی رکھ کر اپنا اجلاس پارلیمان کے باہر کیا۔
بادشاہ نے پولیس اور فوج کو انھیں وہاں سے ہٹانے کا حکم دیا مگر انہوں نے حکم ماننے سے انکار کر دیابالاخرڈیڑھ ماہ بعد غیرملکی سپاہیوں کی مدد سے انھیں وہاں سے منتشر کرکے قید کرلیا گیا ۔بادشاہ مطمئن ہوگیا مگر اس سے اگلے روز عوام کا ہجوم “بستیل” قید خانے پرحملہ آور ہوکرتمام لوگوں کو آزاد کروا کر جیل میں موجود تمام اسلحہ ساتھ لے گئے، اس حملے کے نتیجے میں بادشاہ کی حکومت پر گرفت کمزور ہوگی- دیہات میں بھی بغاوت نے سر اٹھایا بالآخرجون 1791 میں بادشاہ اور ملکہ بھیس بدل کر ملک سے فرار ہونے لگے تو عوام نے پکڑ کر قید کرلیا،عوام کی اسمبلی نے جمہوری دستور بنایا عوامی عدالتیں لگیں جنہوں نے ہر اس شخص کا سر قلم کر دیا جس کے ہاتھ نرم یا کالر صاف تھے کیوں کے یہ اشرافیہ کی نشانی سمجھی جاتی تھی- بادشاہ اور ملکہ کے سر قلم کر دیے گئے – 1793 سے 1794 تک تقریبا 40 ہزار افراد کو قتل کیا گیا اور اس قتلِ عام کے نتیجے میں جدید فرانس کا آغاز ہوا۔
کیا فقط تہذیب و تمدن ملک و قوم کی ترقی کی ضامن ہوتی ہیں۔۔۔؟؟
تاریخ کے الفاظ میں ردوبدل ضرور ہے لیکن کم و بیش انقلاب کا مفہوم و وجوہات ایک جیسی ہی نظر آتی ہیں لیکن یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ اٹھارھویں صدی میں فرانس دنیا کا سب سے مہذب، متمدن اور ترقی یافتہ ملک تھا۔ تہذیب و اخلاقیات، تعلیم، حقوق انسانی، سیاسیات، غرض کہ ہر موضوع پر اس کے ممتاز مفکرین اور ادیبوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ چونکہ عام طور پر یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ سیاسی اصلاح احوال سے سب کچھ درست و صحیح ہو جائے گا۔ لہٰذا جب انقلاب عمل میں آیا تو اس کے سماجی، اخلاقی اور انسانی پہلو تو نظر سے اوجھل ہو گئے اور نگاہیں سیاسی کارفرماؤں پر مرکوز ہوگئیں اور خیالات و جذبات کے لیے ربط سیل کے سامنے بادشاہ، ملکہ، شاہی خاندان، امرا اور وہ سب اشخاص اور ادارے جو سیاسی زندگی سے متعلق تھے یا اس کے آئینہ دار تھے کچل دیے گئے۔
یوم باستیل کے بعد 8 جون 1795ء کوولی عہد فرانس کو بھی قتل کر دیا گیا اور 9 برس تک فرانس کے معاملات کبھی ادھر تو کبھی ادھر ڈولتے رہے یعنی ابھی تک فرانس اپنی اس ڈگر پہ نہیں آیا تھا جس کیلئے اتنی قتل و غارتگری کی گئی تھی اس لیئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہر انقلاب معاشرے اور ملک کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت نہیں رکھتا لیکن عوام نے اپنی طاقت کے اظہار سےبادشاہت اور اشرافیہ کا اثر تو ختم کردیا تھا، جو ان کی بڑی کامیابی تھی لیکن اب بھی انھیں اپنے معاملات خوش اسلوبی سے چلانے کیلئے ایک رہنما ایک لیڈر چاہیئے تھا ایک عدل و انصاف کا نظام چاہیئے تھا کہ وہ اپنے معاشرے کی صحیح معنوں میں تشکیل کرسکیں۔ اور آخر کا ر 9 برس بعد مئی 1804ء میں نپولین بونا پارٹ بر سر اقتدار آیا جس سے فرانس کی تاریخ کا نیا باب شروع ہوا۔
انقلاب سے قبل فرانس کا معاشرتی ڈھانچہ اور آج کے حالات میں مماثلت
ایک طرف فرانس اپنی تہذیب اور تمدن پر ناز کرتا تھا تو دوسری طرف اس کا معاشرتی نظام طبقاتی تقسیم کا شکار تھا ۔آبادی پادری ،امرا اورعوام میں بٹی ہوئی تھی ۔چرچ کی آمدنی پادریوں کی جیبوں میں چلی جاتی تھی ۔اسٹراس برگ کا پادری سال میں چار لاکھ لیراکمالیتا تھا جبکہ عام پادر کی آمدن بھی ایک لاکھ سے دولاکھ تھی ۔فرانس میں امر ااورجاگیر دار خاندانوں کی تعداد بیس اورتیس ہزار تھی جبکہ ملک میں ایک لاکھ 30 ہزار سے زائد پادری تھے اور ان میں سے 10 ہزار اعلیٰ پادری تھے جبکہ چھوٹے پادریوں کی تعداد 60 ہزار تھی ۔اس وقت فرانس کی آبادی اڑھائی کروڑ تھی اور ان اڑھائی کروڑ لوگوں میں سے چار پانچ لاکھ لوگ مراعات یافتہ تھے ۔گویا چارلاکھ لوگ اڑھائی کروڑ لوگوں کی کمائی کھاتے تھے ۔
فرانس ایک زرعی ملک تھا جس میں دوکروڑ سے زائد لوگ کھیتی باڑی کرتے تھے لیکن ان لوگوں کی کمائی ٹیکسوں کی نذرہوجاتی تھی ۔کسان جاگیرداروں کے رحم وکرم پرتھے ۔وہ جاگیر داروں کی اجازت کےبغیر اپنی زمینوں کے گردباڑھ نہیں لگاسکتے تھے اور فصلوں کوخراب کرنے والے جنگلی جانوروں اورپرندوں کوہلاک نہیں کرسکتے تھے۔اس دور میں فرانس میں قانون کی تمام کتابیں لاطینی زبان میں تھیں اور عوام اس زبان سے پوری طرح واقف بھی نہیں تھے۔ملک میں 360 اقسام کے قوانین تھے۔عوام کومعمولی جرائم پرکڑی سزائیں دی جاتی تھیں جبکہ امراء قانون سے بالاتر تھے ۔
بادشاہ پیرس سے 12میل دور "ورسائی” کے محلات میں رہتا تھا ۔اس کے دربار میں 18 ہزار افراد موجود ہوتے تھے۔محل میں 16 ہزار شاہی خادم تھے ۔صرف ملکہ کی خادماؤں کی تعداد پانچ سوتھی ۔شاہی اصطبل میں 19 سوگھوڑے تھے جن کی دیکھ بھال کے لیے 40 لاکھ ڈالر سالانہ خرچ ہوتے تھے اورباورچی خانہ کا خرچ 15 لاکھ تھا۔ بادشاہ کی ان شاہ خرچیوں کے سبب فرانس چار بار دیوالیہ ہوچکا تھا ۔دولاکھ سے زائد مزدور بے روزگار ہوچکے تھے
ملک کے جیل خانے معصوم اوربے قصورلوگوں سے بھرے پڑے تھے لہذا ان حالات میں عوام کے اندر نظام کے خلاف نفر ت ابلنے لگی،کہا جاتا ہے کہ اس نفرت کو 14جولائی 1789ءمیں میٹریل لائز ہونے کا موقع مل گیا ۔پیرس میں دو شاہی محافظ مارے گئے اور اس کے بعد فرانس میں وہ انقلاب آیا جس نے دنیا کا نقشہ بدل دیا۔
انقلاب فرانس کے پس منظر کے حوالے سے رائج تمام کہانیوں سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ریاستی امور چلانے کیلئے فقط تہذیب وتمدن کا ہونا شرط نہیں اور نہ ہی دولت کی فراوانی معاشرے کی تعمیر و ترقی کی بنیاد ہوتی ہے بلکہ کسی بھی معاشرے کی تشکیل عدل و انصاف کے متوازی نظام کے قیام سے ہی ممکن ہے، امیر اور غریب ہر جگہ ہوتے ہیں لیکن جب امیر کو ڈر ہو کہ اسے اس کے غلط کام کی کڑی سزا ملے گی اور غریب کو اطمینان ہو کہ کسی جرم مین وہ بے گناہ جیل میں نہیں دالا جائے گا تو یہی اطمینان قوموں کو آگے لے جانے کا سبب بنتا ہے لیکن طبقاتی نظام اور امیر و غریب کیلئے الگ الگ قانون معاشرے میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ” کوئی بھی حکومت یا ریاست کفر پر تو قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم اور ناانصافیوں پر اس کا برقرار رہنا مشکل ہے”۔ انقلاب فرانس کی فقط باتیں کرنے والوں کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ وہ عوامل کیا تھے جن کی وجہ سے استحصال زدہ کمزور عوام یوں اچانک اتنی طاقت ور ہوگئی کہ پوری ریاست اور اس کی فوج سے ٹکر لے لی، حکمران کہیں کے بھی ہوں اگر وہ اپنی بقاء اور ملک و قوم کی تعمیر و ترقی کے حقیقی معنوں میں خواہاں ہیں تو انھیں ظلم اور ناانصافی کے نظام کو ختم کرکے معاشرے میں یکساں نظام انصاف رائج کرنا ہی ہوگا، ورنہ کب کہاں سے کوئی نقلاب سر اٹھائے اور سب کو بہا لے جائے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔