پولیس کے مطابق رات گئے سابق وزیراعظم نواز شریف کے معاون خصوصی اور سینئر صحافی عرفان صدیقی کو کرایہ داری ایکٹ کی خلاف ورزی پر گرفتار کر کے اسلام آباد کے تھانہ رمنا منتقل کیا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ عرفان صدیقی نے گھر کرائے پر دے رکھا تھا، لیکن قانون پر عمل درآمد نہ کیا اور نہ ہی پولیس اسٹیشن میں اس کا اندراج کروایا۔
اس کے علاوہ عرفان صدیقی کے ساتھ جاوید اقبال نامی شخص کو بھی حراست میں لیا گیا ہے جو کرائے کے مکان میں رہائش پزیر تھا۔ عرفان صدیقی کو گرفتار کر کے سیکشن 188 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔پولیس کی جانب سے عرفان صدیقی کو مجسٹریٹ مہرین بلوچ کی عدالت میں پیش کیا گیا اور ان کے جوڈیشل ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔
عرفان صدیقی کے وکیل نے عدالت سے پولیس کی جوڈیشل ریمانڈ کی درخواست مسترد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے انہیں ضمانت پر بری کرنے کی استدعا کی۔عدالت نے عرفان صدیقی کے وکیل کی استدعا مسترد کرتے ہوئے نواز شریف کے سابق معاون خصوصی کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا۔
مکان کی ملکیت کس کی۔۔۔؟؟
دوسری جانب عرفان صدیقی کے خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ جس مکان کی ملکیت کی بات کی جارہی ہے وہ عرفان صدیقی کے بیٹے عمران خاور صدیقی کی ملکیت ہے، جبکہ کرایہ نامہ بھی عمران خاور اور جاوید اقبال کے مابین 20 جولائی 2019 کو بنایا گیا ہے، ایسی صورت میں گرفتاری کا کیا جواز بنتا ہے۔۔؟؟مذکورہ مکان اسلام آباد کے سیکٹر جی-10 تھری میں واقع ہے جس کا ماہانہ کرایہ ایک لاکھ 70 ہزار روپے مقرر کرتے ہوئے ایک سال کا معاہدہ بنایا گیا ہے۔
ترجمان مسلم لیگ ن کا ردعمل
مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے نواز شریف کے سابق مشیر عرفان صدیقی کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے 78 سالہ عرفان صدیقی کو گرفتار کر کے بھینس چوری مقدمے کی یاد تازہ کر دی ہے، مریم اورنگزیب نے کہا کہ عرفان صدیقی کو نواز شریف کا دیرینہ ساتھی ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔ مریم اورنگزیب نے کہا کہ ایک صاحب علم، استاد، قلم سے جڑے شخص کی گرفتاری ثبوت ہے کہ عمران صاحب انتقام لے رہے ہیں
فردوس عاشق اعوان کو تحفظات
وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے عرفان صدیقی کی گرفتاری کی تحقیقات کا اعلان کردیا، ان کا کہنا ہے کہ معاملے کی تہہ تک پہنچیں گے، حکومت کی پالیسی نہیں کہ پس پردہ اقداما ت کرے، حکومت کسی سطح پر بھی کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کرے گی، اداروں با اختیار بنانا ہمارا مشن ہے، تھوڑا سا وقت دیا جائے، گرفتاری کے معاملے کی تحقیقات کریں گے، یقین دلاتے ہیں کسی سے نا انصافی نہیں ہوگی
معاون خصوصی نےکہا کہ عرفان صدیقی نے جن لوگوں کومکان کرائےپردیا،ان سےمتعلق کچھ سوالات ہیں، نیشنل ایکشن پروگرام کے تحت کرایہ دار کی معلومات جمع کروانی ہوتی ہے، یہ قانون ن لیگ کے دور میں بنا اوراس کا پرچار مریم اورنگزیب اور مریم نواز بھی کرتی تھیں۔انہوں نے کہاکہ حکومت قلم کے تقدس کو تسلیم کرتی ہے، ہمیں بھی عرفان صدیقی کی گرفتاری کےحوالے سے کچھ تحفظات ہیں، دوطرفہ مؤقف کو سننا پڑے گا پھرمعاملے کا پتا چلے گا۔
صحافتی تنظیموں کاردعمل
عرفان صدیقی کی گرفتاری پر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر جی ایم جمالی اور سیکریٹری جنرل رانا عظیم نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ گرفتاری کے معاملے پر جلد بازی کی گئی نہ یہ دیکھا گیا کہ کون ہے اور نہ یہ دیکھا گیا کہ اس کا اصل جرم کیا ہے بس گرفتار کرنے سے مطلب رکھا گیا حکومت کو اس قسم کے اقدامات سے قبل پہلے ہوم ورک کرنا چاہیئے کیونکہ ایسے عمل صحافیوں کے ساتھ عوام میں بھی بے چینی کا باعث بن رہے ہیں، پی ایف یو جے رہنماؤں کے مطابق سب سے پہلے تو ایک سینئر صحافی اور ان کی 78 برس کی عمر کا خیال رکھنا چاہیئے تھا دوسری بات یہ کہ ان پر جو الزام عائد کیا گیا ہے وہ اپنی نوعیت میں خود ایک مذاق ہے، پی ایف یوجے رہنماؤں کے مطابق کسی کی سیاسی وابستگی اپنی جگہ لیکن ایک سینئر صحافی ہونے کی حیثیت سے عرفان صدیقی کے ساتھ کیا جانے والا عمل کسی صورت قابل قبول نہیں ہوسکتا، حکومت نہ صرف فوری طور پر ان کو رہا کرے بلکہ ان کی گرفتاری کے حوالے سے اپنی وضاحت بھی کرے کہ ایسا بھونڈا عمل کس کی ایماء پر اور کیوں کیا گیا۔۔؟؟