سابق وزیر اعظم نوازشریف کے معاون خصوصی عرفان الحق صدیقی کی 30 ہزار روپے کی ضمانت منظورکرلی گئی جس کے بعد انھیں اڈیالہ جیل سے رہا کردیا گیا،عرفان صدیقی کو 26 جولائی کی شب ان کےگھر سے تھانہ رمنا اسلام آباد کی پولیس نے کرایہ داری ایکٹ کی خلاف ورزی پر گرفتار کرکے 14 روزہ ریمانڈ پر جیل بھیجا تھا۔اتوار 28 جولائی کواسسٹنٹ کمشنرمہرین بلوچ نےعرفان صدیقی کی ضمانت لی جسے مقامی مجسٹریٹ نے 30 ہزار روپےکےمچلکوں کے عیوض منظورکیا ، مقامی مجسٹریٹ نے عرفان صدیقی کی ضمانت کے حوالے سے ان کے بیٹے نعمان صدیقی کو بھی آگاہ کر دیا ہے
عرفان صدیقی کی گرفتاری جس مقدمے میں کی گئی وہ حقیقت میں ایک مذاق ہی تھا جس کے تحت 20 جولائی 2019 کو ہونے والے کرایہ نامے کوجواز بنایا گیا کہ عرفان صدیقی نے کرایہ دار کے کوائف اورکرایہ نامہ مقامی تھانے میں بروقت جمع نہیں کرائے، جبکہ معاملہ یہ تھا کہ جس مکان کو کرائے پر دیا گیا وہ عرفان صدیقی کے بیٹے کے نام اور کرایہ نامہ پر بطور مالک مکان دستخط بھی بیٹے کے ہی تھے
اس معاملے پروفاقی وزیرداخلہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کا کہنا تھا کہ لگتا ہےعرفان صدیقی کو مسلم لیگ (ن) نے ہی گرفتار کرایا ہے کیونکہ عرفان صدیقی کی گرفتاری جس نے بھی کی، اس نے تحریک انصاف کا فائدہ نہیں کیا، انہوں نے کہا کہ معلوم کرانا پڑے گا کہ ذمے دار کون ہے؟
جبکہ معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ عرفان صدیقی کی گرفتاری کی بات وزیراعظم کےعلم میں بھی لائی گئی ہے،انہوں نے کہا کہ ایف آئی آرمیں کہا گیا کہ عرفان صدیقی نے کرایہ داری ایکٹ کی خلاف ورزی کی اور کرائے دار کو تھانے میں رجسٹر کرانے میں ناکام رہے، جبکہ عرفان صدیقی کا بیٹا پاکستان میں نہیں بلکہ دبئی میں ہے، پھر کرائے نامے پر دستخط کس نے کیے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ پولیس کے مطابق کرایہ نامہ جعلی بنایا گیا لیکن اپوزیشن نے عرفان صدیقی کے معاملے کو کیش کرایا ہے اور اپنے ساتھ جوڑا ہے۔
اس سارے معاملے میں وفاقی وزیرداخلہ کی بات میں اس لحاظ سے وزن نظر آتا ہے کہ ممکنہ طور پر گرفتاری کے پیچھےمسلم لیگ ن کا ہاتھ ہو کیونکہ ماضی کی دوحکومتوں کے 10 سالہ دورمیں تعینات کیئے گئے ہزاروں افسران و اہلکاروں کو ممکن نہیں کہ آنے والی حکومت ایک دفعہ میں ہی ہٹا دے، ان تعینات کیئے گئے افسران واہلکاروں کی وفاداریاں کب کس کے ساتھ ہیں اوروہ احسانمندی کا قرض کس طرح چکاتے ہیں یہ الگ بحث ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ کم ازکم حکومت اتنی ناسمجھ نہیں کہ ایک بے تکی بات پر کسی سیاسی شخصیت کی گرفتاری کرے کیونکہ عرفان صدیقی کی گرفتاری کیلئے بہت سے دیگر معاملات کو بھی جواز بنایا جاسکتا تھا چاہےاس میں سوات آپریشن کے دوران صوفی محمد سے مذاکرات ہوں یا اپنی تعیناتی کے دوران اقرباء پروری کے امور۔
"یہاں رانا ثناء اللہ کی مثال اس لیئے نہیں دی جاسکتی کہ ان کی کار سے منشیات کی بڑی کھیپ پکڑی گئی تھی جبکہ عرفان صدیقی کے معاملے میں جو دفعہ لگائی گئی وہ ان پر لاگو ہی نہیں ہوتی۔”
مختلف محکموں میں سیاسی وابستگیوں کی بناء پر تعیناتی پاکستان میں کوئی نہیں بات تو ہے نہیں اور ان افسران و اہلکاروں کی جانب سے بہت سے واقعات ایسے رونما ہوتے رہتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ گڑبڑ تو کی جارہی ہے تاکہ حکومت کو بدنام کیا جاسکے۔
اب ریلوے کے حادثات کو ہی لے لیں اچانک ایسا کیا ہوا کہ شیخ رشید کے وزیرریلوے بنتے ہی اچانک ریلوے کے حادثات بڑھ گئےآئے دن کوئی ٹرین پٹری سےاتر رہی ہے توکوئی ٹرین اسٹیشن پر کھڑی دوسری ٹرین سے جا کر اپنا سر ٹکرا رہی ہے کہیں سگنل اچانک کام کرنا بند کردیتے ہیں تو کہیں لوپ لائن کو تبدیل کرنے والا کانٹا اٹک جاتا ہے۔۔!! ٹرین اپنی لائن پرچلتی ہے اور انجن میں بیٹھا ڈرائیور نہ دماغ سے پاگل ہوتا ہے نہ اپنی زندگی سے تنگ کے سیدھا اپنی ٹرین لے جاکر کسی دورسی ٹرین سے ٹکرا کر اپنی اور دیگر سینکڑوں مسافروں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دے۔
انجن ڈرائیورمحتاج ہوتا ہےان سگنلز کا جو اسٹیشنزپر بیٹھےاہلکاراسےدیتے ہیں اورایک ٹریک پر کھڑی یا دوسری جانب سے آنے والی ٹرین کو دوسرے ٹریک پر منتقل کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں، اگر حادثات بڑھ رہے ہیں تو اس میں کم ازکم وزیرریلوے کو ڈائریکٹ الزام دینے والے زیادتی کررہے ہیں یہ باریک کارروائی اسٹیشنزپر بیٹھے چھوٹے موٹے لائن مینوں سمیت دیگر ٹیکنیکل اسٹاف کی ہوسکتی ہے جن کی تعیناتیوں کی چھان بین ضروری ہے کیونکہ اگر وہ ایسا کررہے ہیں تو انسانی جانوں سے کھیلنے کا ان کا جرم بہت خطرناک اور بڑا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ متعلقہ وزیر کو اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے کوئی حکمت عملی لازمی بنانا چاہیئے۔
عام آدمی کو کسی بحث میں الجھنے سے پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر کہیں کوئی کام الٹ پھیر میں ہورہا ہے تو اس کی تم تر ذمہ داری حکومت یا متعلقہ وزیرپرنہیں ڈالی جاسکتی ان کالی بھیڑوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا جواپنی سیاسی وابستگیوں کو اس طرح کے کام اورجرم انجام دے کر وفاداری کا ثبوت دیتے ہیں ، یہ اپنی سیاسی وابستگیوں کی بناء پر ملک و قوم کے خلاف کام کررہے ہیں کم از کم عرفان صدیقی کی گرفتاری اور ریلوے حادثات کی بڑھتی شرح کو دیکھ کر یہی اندازہ ہوتا ہے، ایسے میں ضروری ہے کہ عوام کسی پروپیگنڈے کا شکار ہونے کے بجائے اپنے دماغ کا استعمال شروع کریں کہ کسی بھی غیر معمولی کام کی ذمہ داری فورا حکومت وقت پر ڈالنا عقلمندی نہیں بلکہ ایک باشعور قوم کا ثبوت دیتے ہوئے سیاق و سباق اور پس منظر کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔
ساتھ ہی حکومت وقت کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اس طرح کے معاملات سامنے آتے ہی بیان بازی کےبجائے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے فوری اس کی تہہ تک پہنچیں معاملے کو سلجھائیں اور پھر جوچاہے بیان دیتے رہیں، پہلے کچھ کہہ دیا اور بعد میں کچھ نکلے اور اس کا سدباب کرتے رہیں تو اس طرح ان کی اپنی ہی سبکی ہونی ہے۔