قومی سلامتی کمیٹی کا کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بھارتی فیصلے کے خلاف انڈیا کے ساتھ سفارتی تعلقات محدود کرنے اور دو طرفہ تجارت معطل کرنے کا فیصلہ،جبکہ 14 اگست کو یوم یکجحہتی کشمیر اور 15 اگست کو بھارتی یوم آزادی پر یوم سیاہ منایا جائے گا۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اہم فیصلے
وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں مسلح افواج کے سربراہان، انٹیلی جنس حکام اور سول قیادت شریک ہوئی۔ اجلاس میں سول و عسکری قیادت نے کشمیر کی تازہ ترین صورت حال کا تفصیلی جائزہ لیا، پاکستان کے بھرپور رد عمل اور ممکنہ آپشنز پر مشاورت مکمل کر لی گئی، ملکی داخلی سلامتی اور سیکورٹی سے متعلق اہم فیصلے کیے گئے۔
اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں لے جایا جائے گا، 14 اگست کشمیریوں سے اظہار یک جہتی کے طور پر منایا جائے گا، جب کہ 15 اگست کو یوم سیاہ منایا جائے گا۔ وزیر اعظم نے اجلاس میں بھارتی عزائم بے نقاب کرنے کے لیے سفارتی ذرائع استعمال کرنےاورمسلح افواج کو مکمل تیار رہنے کی ہدایت کی ہے اعلامیے کے مطابق بھارت کے ساتھ دو طرفہ معاہدوں پر بھی نظر ثانی کی جائے گی۔
بھارتی ہائی کمشنر کو ملک چھوڑنے کا حکم
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلوں کی روشنی میں بھارت سے اپنا ہائی کمشنر واپس بلا لیا جائے گا جبکہ پاکستان میں بھارتی ہائی کمشنر کو رخصت کرنے کی ہدایت کردی گئی ہے۔
پارلیمنٹ کی مشترکہ قرارداد
دوسری جانب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے خلاف متفقہ قرارداد منظور کر لی گئی۔
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے طلب کردہ قومی اسمبلی ار سینٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیر اعظم، اوپزیشن لیڈر اور حکومتی و حزب اختلاف کے رہنماوں کی تقاریرکے بعد اجلاس کے دوسرے دن مشترکہ قرارداد منظور کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کا کوئی بھی یکطرفہ حل قابل قبول نہیں کیا جاسکتا۔
مشترکہ اجلاس میں مذمتی قرارداد چیئرمین کشمیرکمیٹی سید فخرامام نے پیش کی جس میں کہا گیا کہ ہم مقبوضہ کشمیر پر بھارت کے غیر قانونی اقدام کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ مذمتی قرارداد میں کہا گیا کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی یک طرفہ حل قابل قبول نہیں، مقبوضہ کشمیر عالمی طور پر تسلیم شدہ متنازع علاقہ ہے، مسئلے کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت ہی ممکن ہے۔
قرارداد کے متن میں کہا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اور شہری آزادی پر پابندی قبول نہیں ہے، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں قابل مذمت ہیں، پاکستانی حکومت اور عوام کشمیری بہن بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ قرارداد میں لائن آف کنٹرول پر کلسٹر بموں کے استعمال کی بھی سخت مذمت کی گئی، کہا گیا کہ بھارت کا ایل او سی پر کلسٹر بموں کا استعمال قابل مذمت عمل ہے۔ پارلیمنٹ نے متفقہ قرارداد کے ذریعے کہا کہ بھارت کشمیر کا آبادیاتی ڈھانچا تبدیل کرنے سے باز رہے
واضح رہے بھارتی پارلیمنٹ کے اجلاس میں بھارتی وزیرداخلہ نے آرٹیکل 370 ختم کرنے کا بل پیش کیا گیا تھا، بعد ازاں بھارتی صدر نے آرٹیکل 370 ختم کرنے کے بل پر دستخط کر دیے اور گورنر کا عہدہ ختم کرکے اختیارات کونسل آف منسٹرز کو دے دیئے، جس کے بعد مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہوگئی تھی۔
پاکستان نے مقبوضہ کشمیر سے متعلق بھارتی اعلان پہلے ہی دن مسترد کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ بھارت کاکوئی بھی یکطرفہ قدم کشمیر کی متنازعہ حیثیت ختم نہیں کرسکتا ، بھارتی حکومت کافیصلہ کشمیریوں اور پاکستانیوں کیلئےناقابل قبول ہے۔