1.5K
میڈیارپورٹس کےمطابق بھارتی سپریم کورٹ کےتین رکنی بنچ نےمقبوضہ وادی کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے حوالے سےدائردرخواست کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کی صورتحال حساس ہے اس لیےحالات معمول پر آنےتک انتطارکرناچاہيے ایسے میں فوری طور پر کوئی حکم جاری نہیں کیا جاسکتا۔
درخواست گزارکانگریس رہنما تحسین پونے والا نے پٹیشن میں استدعا کی تھی کہ ریاست کشمیر میں نافذکرفیو، ٹیلی فون، موبائل اورانٹرنیٹ کی معطلی اور ٹی وی چینلزکی بندش ختم کی جائے،درخواست میں یہ بھی کہاگیا کہ کشمیری سیاسی قیادت جن میں سابق وزرائے اعلیٰ کشمیرعمرعبداللہ اورمحبوبہ مفتی شامل ہیں ان کورہا کیےجانےکےساتھ انڈین حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 کےخاتمے کے بعد پیدا ہونی والی صورتحال پر کشمیر کی آئینی حیثیت سے متعلق جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔
انڈیا کی دوسری بڑی سیاسی جماعت کانگریس پارٹی کے رکن تحسین پونےوالا کی جانب سے دائراس درخواست کی سماعت جسٹس ارون مشرا، جسٹس ایم آر شاہ اور جسٹس اجے رستوگی پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کی، انڈین سپریم کورٹ نے اس بارے میں کوئی حکم نہیں کیا اورسماعت دو ہفتےکے لیے ملتوی کر دی ہے۔
دوسری جانب مقامی اخبار کشمیر ٹائمز کی ایگزیکٹیو ایڈیٹرانورادھا بھاسن کی جانب سے بھی سپریم کورٹ میں کشمیرمیں عائد پابندیوں کےحوالے سے جمع کروائی گئی درخواست پر عدالت اعظمیٰ نے فوری سماعت کرنے سے انکار کر دیا اور درخواست گزار سے کہا وہ فوری سماعت کے لیے اپنی پٹیشن رجسٹرار کو جمع کروائے۔ عدالت ان کی درخواست پر غور کرے گی۔
اس سےقبل جموں و کشمیرکی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس نےبھی انڈین حکومت کی جانب سے صدارتی آرڈیننس کےذریعےکشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے خلاف انڈین سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی تھی، یہ درخواست لوک سبھا کے دو اراکین محمد اکبر لون اور سابق جسٹس حسنین مسعودی نےجمع کروائی تھی جس میں انڈین پارلیمنٹ سےمنظور شدہ قانون سازی اور اس کے نتیجے میں صدر سے جاری کردہ احکامات کو’غیر آئینی، کالعدم اور غیر فعل’ قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔
اُدھرانڈیاکی خواتین صحافیوں کےپریس کلب آئی ڈبلیو پی سی نےوادی کشمیرمیں مواصلات اور رابطے کے سبھی ذرائع بند ہونے پر تشویش ظاہرکی ہے، کلب کی صدر جیوتی ملہوترا کی طرف سے جاری کیے گئےایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جمہوری نظام میں میڈیا کلیدی حیثیت رکھتا ہے،دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے ناطے انڈیا میں میڈیا کا کردار بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔‘ اگر رابطے کے بنیادی وسائل تک رسائی نہیں ہوگی تو میڈیا اپنا کام صحیح طرح سے نہیں کر سکے گا۔ آرٹیکل 370 کو ختم کیے جانے کے حکومتی فیصلے کے ایک ہفتے بعد فون اور انٹرنیٹ بند ہے،آج کے ڈیجیٹل دور میں یہ میڈیا کو پوری طرح بند کرنے کے مترادف ہے۔‘ خواتین پریس کلب نے کشمیر میں کام کرنے والے صحافیوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ وہ تمام رکاوٹوں کے باوجود اپنی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔
تین روزقبل مدیروں کی ایسوسی ایشن ایڈیٹرزگلڈ نے بھی وادی کشمیر میں رابطے کے سبھی ذرائع معطل کیےجانے پرگہری تشویش ظاہر کی تھی،گلڈ نے ایک بیان میں حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ میڈیا کیلئےرابطے کے وسائل بحال کرنے کے لیے فوری اقدامات کرے بیان میں کہا گیا تھا کہ میڈیا کی شفافیت ہمیشہ انڈیا کی طاقت رہی ہے اور رہنی چاہیے،گلڈ نے کشمیر سے غیر معمولی مشکلات کے باوجود خبریں بھیجنے والے تمام صحافیوں کی ستائش کرتے ہوئے ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے۔