1.4K
جمعے کو اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں 50 سال بعد پہلی مرتبہ مسئلہ کشمیر پر گفتگو کی گئی، اگرچہ بند کمرے میں ہونے والے اس اجلاس کی تمام تر تفصیلات سامنے نہیں آسکی ہیں اور چینی مندوب یا اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل سفیر ملیحہ لودھی کی میڈیا سے گفتگو ہی سے معلوم ہوا کہ اجلاس میں مسئلہ کشمیر کو بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دینے کے انڈین موقف کی نفی کی گئی ہے۔ یہ ایک ہی جملہ اپنے اندر ویسے ہی بہت سی کہانیاں سمیٹے ہوئے اور بہتے سے رازوں کا مفہوم بیان کرنے کیلئے کافی ہے۔
دوسری جانب عالمی سطح پر بھارتی شکست کی جانب ایک اور قدم بڑھ گیا ہے جب چین کی درخواست پر سلامتی کونسل کے 15 میں سے 12 ارکان نے مسئلہ کشمیر پر کونسل کا اوپن سیشن بلانے کی تائید کردی ہے تائید کرنے والوں میں امریکہ، برطانیہ اور بحارت کا دیرینہ دوست روس بھی شامل ہیں جبکہ فرانس سمیت 3 ممالک نے اس کی مخالفت کی۔
آج تک مسئلہ کشمیر پر بھارت اپنی ہٹ دھرمی سے عالمی طاقتوں پر اپنا یہی موقف تھوپتا رہا ہے کہ کشمیر بھارت کا اندرونی مسئلہ ہے اور اس کے دو ہی فریق پاکستان اور انڈیا ہیں، وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکہ میں صدر ٹرمپ کی جانب سے ثالثی کی پیشکش کے ساتھ ہی ڈونلڈ ٹرمپ یہی کہتے نظر آئے کہ کشمیر کو بھارت اندرونی مسئلہ قرار دیتا ہے اس کے باوجود دونوں ممالک چاہیں تو وہ ثالثی کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔
اس پیشکش کے بعد بھارت میں واویلا شروع ہوا، نریندر مودی سے اس بات کی وضاحت مانگی جانے لگی کہ ٹرمپ کے دعوے کا جواب دیں جس میں وہ کہتے ہیں کہ نریندر مودی نے ہی انھیں ثالثی کا کردار ادا کرنے کی درخواست کی تھی، مودی اپن ی اس غلطی کا کیا ہی اعتراف کرتے الٹا ایک اور سنگین غلطی کرتے ہوئے آرٹیکل 3710 کا خاتمہ کرڈالا اور پھر اس نادان لیکن انتہا پسند سیاستدان کا پاوں کلہاڑی پر پر ہی گیا، اس کے ساتھ ہی بھارت کا وہ موقف کہ کشمیر انڈیا کا اندرونی مسئلہ ہے کمزور پرنا شروع ہوگیا۔
بھارت اپنےاس موقف کی تائید حاصل کرنے اور عالمی طاقتوں و انسانی حقوق کی تنظیموں کو مسئلہ کشمیرسے دوررکھنے پر ہر سال کروڑوں ڈالرز خرچ کرتا رہاہے، اوراسکی مضبوط لابی اب تک اس میں کامیاب بھی رہی ہے لیکن مودی سرکارکےآرٹیکل 370 کے خاتمےاورکشمیریوں کوان کی ہی سرزمین پر سخت کرفیو اور9 لاکھ افواج کے ذریعے قید کرنے کا معاملہ مودی سرکار کی مشکلات میں اضافے اور دنیا کی خاموشی کو توڑنے کا سبب بننا شروع ہوچکا ہے، سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر پر گفتگو اس سلسلے کی پہلی اور اہم ترین کڑی اور مودی حکومت کے پاوں پر کلہاڑی مارنے کے عمل کی تکرارہے۔
ویسے بھی سلامتی کونسل کے اجلاس کی پوری اندرونی کہانی کا خلاصہ خود بھارتی رہنماوں کے رویئے اور اپوزیشن کے الفاظ سے معلوم ہوجاتا ہے جب بھارت کی حزب اختلاف کی جماعت کانگریس کی جانب سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر پر اجلاس کو مودی حکومت کی سفارتی ناکامی قرار دیا گیا۔
ترجمان بھارتی کانگریس ابھیشیک سنگھوی نے بھارتی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کا معاملہ بین الاقوامی سطح پر اجاگر ہونا بھارتی حکومت کی سفارتی اوراسٹریٹجک ناکامی ہے۔ ان کے اس بیان کے بعد اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش پر جواب دینے سے گریزاں مودی نے آرٹیکل 370 اور کمشیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے اپنے انتہائی اقدام سے بھارت کی عالمی سطح پر شکست کے دروازے کھول دیئے ہیں جسے کسی نے ابتداء میں اتنی شدت سے محسوس نہیں کیا تھا لیکن کشمیر کی موجودہ صورتحال پرعالمی ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیوں، دنیا کےمتعدد ممالک کےہلکے پھلکے بیانات اوراب اسلامتی کونسل کے اجلاس نے انڈیا کیلئے سفارتی محاذوں پر شکست کے دروازے ایک کے بعد ایک کھولنا شروع کردیئے ہیں، اور اب یہ امید بھی بندھ چلی ہے کہ ان دروازوں سے ہی مقبوضہ کشمیر کی 72 سالہ جدوجہد کے نتائج آزادی کی صورت میں داخل ہوگی۔