بھارت نے سلامتی کونسل کا اجلاس بلائے جانے سے روکنے کے لیے تمام تر کوششیں کیں اوراس میں ناکامی کے بعد جب مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے سلامتی کونسل کا اجلاس ہونے لگا تو بھارتی انتہا پسند حکومت کے انتہا پسند وزراء دھمکیوں پر اتر آئے اورمودی سرکارکےوزیردفاع راج ناتھ سنگھ نے ایٹمی ہتھیارں کے پہلے استعمال کی پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ دیا۔
راج ناتھ نے سوشل میڈیا پر جاری بیان میں گیڈر بھبکی دیتے ہوئے کہا کہ بھارت اب تک ‘نو فرسٹ یوز’ یعنی پہل نہ کرنے کی پالیسی پر قائم رہا، مستقبل میں کیا ہو گا اس کا انحصار حالات پر ہے۔
بعد ازاں راج ناتھ سنگھ نے اپنی ٹویٹ میں اسی بات کو دہراتے ہوئے کہا کہ ‘پوکھران وہ مقام ہے جہاں ہم نے انڈیا کو جوہری طاقت بنانے کیلئے اٹل بہاری واجپائی کے پختہ عزم کو دیکھا تھا، لیکن ہم ابھی بھی اسی پالیسی پر سختی سے عمل پیرا ہیں۔ البتہ مستقبل میں کیا ہوگا، وہ حالات پر منحصر ہے۔’ انھوں نے ایک اور ٹویٹ میں کہا کہ ‘انڈیا کا جوہری صلاحیت کا ایک ذمہ دار ملک بننا ہر شہری کے لیے باعث فخر ہے اور پوری قوم اٹل جی کا یہ احسان کبھی نہیں چکا سکتی۔’
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کسی انڈین وزیر دفاع نے جوہری ہتھیار پہلے استعمال نہ کرنے کی پالیسی یعنی نو فرسٹ یوز (این ایف یو) کے بارے میں بات کی ہو، نریندر مودی کے سابق وزیر دفاع منوہر پاریکر نے سنہ 2016 کے نومبر میں بھی این ایف یو کے بارے میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ انڈیا کواس پالیسی پر عمل پیرا ہونے کی کیا ضرورت ہے، بعد ازاں وزارت دفاع کی جانب سے جاری کی گئی باضابطہ وضاحت میں کہا گیا تھا کہ وہ بیان منوہر پاریکر نے ذاتی حیثیت میں دیا تھا۔
بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق بیان پر ترجمان کانگریس نے کہا کہ جوہری معاملہ بہت حساس نوعیت کا ہے، اس پر مبہم بات نہیں کی جا سکتی لہذا اس حوالے سے مودی سرکار واضح پالیسی بیان جاری کرے، دوسری جانب بھارتی وزیر دفاع کے بیان کے بعد یہ بحث بھی اب شروع ہوچکی ہے کہ ان کا اشارہ کس جانب ہے کیا وہ پاکستان سے ممکنہ جنگ کے حوالے سے اپنے عزائم بتارہے ہیں یا بات کچھ اور ہے۔۔؟؟
اب سے کچھ عرصہ قبل دنیا میں ایٹمی پروگراموں پر نظر رکھنے والے امریکہ کے دو سرکردہ جوہری ماہرین نے اپنے ایک تحقیقی مقالے میں لکھا تھا کہ انڈیا اپنے جوہری ہتھیاروں کی مسلسل جدت اور توسیع میں مصروف ہے اور اس کی جوہری تیاریوں کے نشانے پر اب پاکستان نہیں بلکہ چین ہے۔
جوہری سرگرمیوں کے بارے میں تجزیہ کرنے والے جریدے ‘آفٹر مڈ نائٹ’ کے تازہ ترین شمارے میں شائع ایک مضون میں ہینز ایم کرسٹینسین اور رابرٹ ایس نوریس نے یہ بھی بتایا ہے کہ انڈیا اب طویل فاصلے تک مار کرنے والا ایک ایسا جوہری میزائل بنانے میں مصروف ہے جس سے وہ جنوبی انڈیا سے چین کے کسی بھی علاقے کو ہدف بنا سکتا ہے۔
ایسے میں جب کشمیر کی وجہ سے پاک بھارت کشیدگی عروج پر ہے اور لداخ کے معاملے پر چین بھی بھارتی اقدام کو اپنی خودمختاری کے خلاف ایک خطرہ قرار دے چکا ہے، بھارتی وزیر دفاع کا بیان مودی سرکار کی بیوقوفانہ اور انتہا پسند سوچ کی عکاسی کرتا ہے جس میں اس حقیقت کا ذرا بھی ادراک نہیں کہ ان کے کسی اقدام یا بیان کے نتائج کتنے بھیانک نکل سکتے ہیں اور ایک ہلکی سی چنگاری خطےکوجنگ کےبھیانک خطرے میں دھکیل سکتی ہے ماہرین کے مطابق اس جنگ کی ابتداء دو سے نہیں بلکہ اس کا آغاز ہی سہ فریقی صورت میں ہوگا یعنی بھارت کوبیک وقت پاکستان اورچین سے سامنا کرنا ہوگا۔
ویسے ماضی گواہ ہے کہ بھارتی حکمران ہمیشہ سے خطے کے امن کو خطرے میں ڈالنے کیلئے سازشوں کےساتھ غیرسنجیدہ اوربیوقوفانہ بیانات دیتےرہے ہیں لیکن اب صورتحال یکسر بدل چکی ہے، اگربھارت نے چین سے جنگی چھیڑ چھاڑ کی تو پاکستان خاموش نہیں بیٹھے گا اور پاکستان سے جنگ کی صورت میں چین بھی از خود اس میں ایک فریق بن جائے گا اورتمام تر صورتحال بھارتی عزائم کو خاک میں ملانے کیلئے کافی ہوگی، ایسے میں مودی سرکار کو اپنے وزیر دفاع کے بیان کا نوٹس لیتے ہوئے فوری وضاحت جاری کرنی چاہیئے، کہ ان کےاس طرح کے بیانات کے پس پردہ عزائم کیا ہیں۔۔؟؟ ورنہ خدشہ ہے کہ اکھنڈ بھارت کے خواب کہیں کھنڈر بھارت میں تبدیل نہ ہوجائیں۔