پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر پر ان دنوں حالات انتہائی کشیدہ ہوچکے ہیں اور بھارتی رہنماوں کی ناعاقبت اندیشی سے خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ کشیدگی کسی بھی وقت جنگ کی آگ میں تبدیل ہوسکتی ہے، جبکہ بھارتی وزیر دفاع کے حالیہ بیان کہ انڈیا نیوکلیئر ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہیں کرے گا اس کے جنگی عزائم کا پتہ دے رہے ہیں۔
کشیدہ حالات اور ممکنہ جنگ کے خدشہ کے تناظر میں پاک بھارت فوجی صلاحیتوں کے موازنے میں ایک جانب عددی اعتبار سے بھارت کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے تو دوسری جانب صلاحیت، جذبے اور پیشہ ورانہ مہارت میں پاکستان انڈیا سے کہیں آگے ہیں لیکن اب جنگوں کا دارومدار روایتی ہتھیاروں سے ہٹ کر جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی صلاحیت پر منتقل ہوچکا ہے ایسے میں ایک جانب جب یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا پاکستان اور بھارت میں جنگ ہوسکتی ہے۔۔؟؟ تو دوسری جانب دونوں ممالک کے عوام اس سوال کے جواب کی تلاش میں بھی ہیں کہ ایٹمی قوت سے آراستہ دونوں ممالک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار ہیں
بھارت کا جوہری پروگرام
بین الاقوامی ریسرچ اور تحقیقاتی اداروں کی رپورٹ کے مطابق انڈیا کے بارے اندازہ ہے کہ اس نے جوہری بم بنانے والی تقریباً 600 کلو گرام پلوٹونیم تیارکرلی ہے،جوہری سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اتنی پلوٹونیم ڈیڑھ سو سے دو سو بم بنانے کے لیے کافی ہے، لیکن ان کی تیاری کب اور کتنے عرصے میں کی جاسکے گی ماہرین کے مطابق اس میں کم از کم 5 سال کا عرصہ درکار ہے تاہم یہ کہا جاتا ہے کہ اس وقت جوہری بم گرانے والے جنگی جہازوں اور میزائلوں کے بارے میں دستیاب معلومات کی بنیاد پر یہ اندازہ لگایا جارہا ہے کہ انڈیا کے پاس 120 سے 130 کی تعداد میں ایٹم بم موجود ہیں، جبکہ انڈیا اس وقت مختلف فاصلوں تک جانے والے کئی جوہری صلاحیت والے میزائلوں کی تیاری میں مصروف ہے تاہم انھیں جوہری بموں سے لیس کرنے کے لیے اسے مزید بم بنانے ہوں گے۔
ممبئی کے قریب دھرووا ری ایکٹر میں پلوٹونیم تیار کی جاتی ہے اب وہ پلوٹونیم کے لیے مبینہ طور پر دو اضافی ری ایکٹر تعمیر کر رہا ہے لیکن اس مین بھی 3 سے 5 سال کا عرصہ درکار ہے،ماہرین کا کہنا ہے کہ جنوبی ہند کی ریاست تمل ناڈو میں قائم کلاپکّم جوہری تنصیب میں اندرا گاندھی سینٹر فار اٹامک ریسرچ میں ‘فاسٹ بریڈر ری ایکٹر’ کی تعمیر سے مستقبل میں جوہری بم میں استعمال ہونے والی پلوٹونیم تیار کرنے کی انڈیا کی صلاحیت میں کافی اضافہ ہو گا۔
امریکہ کے جوہری ماہرین نے کچھ ماہ قبل اس حوالے سے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ انڈیا کا پروگرام روایتی طور پر پاکستان کو جوہری حملے سے روکنے کے گرد مرکوز رہا ہے لیکن اب وہ جس نوعیت کی جوہری توسیع اور جدید کاری کر رہا ہے اس سے واضح عندیہ ملتا ہے کہ اس کی حمکت عملی اب چین پر مرکوز ہو رہی ہے، محققین کا خیال ہے کہ چین کے کسی جوہری حملے کا یقینی طور پر جواب دینے کی اہلیت حاصل کرنے کے لیے انڈیا آنے والے دنوں میں اور زیادہ کارگر اور وسیع حکمت عملی اختیار کرے گا۔
اُدھر ہینز ایم کرسٹینسین اور رابرٹ ایس نوریس نامی جوہری ماہرین نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ جوہری بم گرانے کے لیے انڈیا کے پاس اس وقت سات طرح کے دفاعی نظام ہیں۔ ان میں دو جنگی طیارے جیگوار اور میراج 2000 ہیں۔ روسی ساخت کے سوخوئی اور مگ 27 کے بارے میں بھی کئی ماہرین کا خیال ہے کہ انھیں بھی ایٹمی ہتھیار کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن کا اس کا امکان کم ہے۔
بھارتی میزائل صلاحیت
اس کےعلاوہ انڈیا نےمختلف فاصلوں تک جانےوالے زمین سے زمین پر مار کرنے والے چار بیلسٹک میزائل بنا رکھے ہیں،ایک بیلسٹک میزائل سمندر کے نیچے آبدوز سے لانچ کیا جاسکتا ہے، پرتھوی-2، اگنی-1، اگنی-2 اور اگنی-3 جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت والے میزائل ہیں اور یہ پہلے ہی انڈین فوج کی کمان میں ہیں۔
انڈیا اگنی-4 کے کئی تجربے کر چکا ہے اور یہ جلد ہی استمعال میں آ جائے گا۔ یہ بیلسٹک میزائل ساڑھے تین ہزار کلومیٹر کی دوری تک کسی ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ انڈیا کے شمال مشرقی خطے میں اسے نصب کیے جانے سے بیجنگ اور شنگھائی سمیت پورا چین اس کی زد میں ہو گا۔
دفاعی تحقیق کا ادارہ ڈی آر ڈی او 5000 کلومیٹر کی دوری تک وار کرنے والا بین براعظمی بیلسٹک میزائل اگنی 5 بھی تیار کر رہا ہے، حملے کے لیے اضافی فاصلے کی صلاحیت سے اگنی-5 کو انڈیا کی جنوبی ریاستوں میں تعینات کیا جا سکتا ہے جہاں سے وہ چین کے کسی بھی خطے کو ہدف بنا سکتا ہے اور ساتھ ہی وہ چین کے جوابی وار سے بھی کافی دور ہو گا۔
اس طرح کی بھی اطلاعات ہیں کہ انڈیا نے اگنی-6 پر بھی کام شروع کر دیا ہے۔ اس کے بارے میں زیادہ تفصیلات نہیں ہیں۔ لیکن حکومت انڈیا کے پریس انفارمیشن بیورو کی ویب سائٹ پر شائع ایک مضمون میں دعوی کیا گیا تھا کہ یہ میزائل 8000 سے 10000 کلومیٹر تک پرواز کر سکتا ہے اور اسے آبدوز اور زمین دونوں جگہ سے لانچ کیا جا سکے گا۔
بین الاقوامی ماہرین کے مطابق ان بھارتی میزائل سے نہ دنیا خوفزدہ ہے اور نہ پاکستان کی سحت پر اس سے کچھ اثر ہوا ہے کیونکہ یہ تمام بھارتی میزائل ہدف کو نشانہ بنانے کی 100 فیصد صلاحیت سے محروم ہیں اوران کے اکثر تجربات ناکام بھی ہوئےہیں لیکن دنیا کو بتانے کیلئے بھارت یہی دعویٰ کرتا آیا ہےکہ تجربات کامیاب رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اکثر میزائل تجربے کے دوران یا تو فضا میں پھٹ گئےیا ہدف سے کئی میل دورکہیں اورجاگرے،بھارت اپنےمیزائل کی کارکردگی اور پاکستانی میزائل کی صلاحیت سےاچھی طرح واقف ہےیہی وجہ ہےکہ اسکی تمام ترگیڈربھپکیاں صرف دکھاوے کی ہوتی ہیں اصل میں بھارت براہ راست جنگ کے نتائج سے اچھی طرح واقف ہے اور پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی جارحیت اس کیلئے سنگین غلطی ثابت ہوسکتی ہے۔
پاکستانی میزائل ٹیکنالوجی
امریکہ کی شکاگو یونیورسٹی سے منسلک سائنسدانوں کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق پاکستان نے بھارت کو اپنے کئی ہتھیاروں کے تجربے کے ذریعے پیغام دیا ہے کہ پاکستان روایتی ہتھیاروں کے معاملے میں بھی بھارت سے کہیں آگے ہے۔ فضائی طور سے وہ اس سے کہیں مضبوط اور دفاعی صلاحیت سے آراستہ ہے۔ اس نے اپنے آپ کو جدیدF۔17 تھنڈر طیاروں سے لیس کرلیا ہےجبکہ بھارت کی فضائی صلاحیت کمزور نظر آرہی ہے، 27 فروری 2019 کو بحاری ایئر فورس کو دانت کھٹے کرنے والا بھرپور جواب ان ہی جے ایف تھنڈر کی مرہون منت تھا دنیا ان پاکستانی طیاروں کی صلاحیت اور پاکستانی پائلتس کی قابلیت پر اب تک حیران ہے، پھر اس سے قبل پاکستان نے 2 فروری 2015ء کو ریڈار پر نظر نہ آنے والا اور روایتی و ایٹمی ہتھیار سے لیس کروز میزائل ’’رعد‘‘ کا تجربہ بھی کیا۔ یہ رعد کروز میزائل جس کی رفتار کی حد 350 کلومیٹر ہے اور وہ زمین پر یا سمندر میں اپنے ہدف کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنا سکتا ہے، جو تجربہ کیا گیا اس میں اس کی کامیابی 100 فیصد تھی۔
یہ کروز میزائل ہے جو رکاوٹوں کے باوجود سیدھا اپنے ہدف کی طرف لپکتا ہے۔ 9مارچ 2015ء کو پاکستان نے شاہین سوئم بلیسٹک میزائل کا کامیاب تجربہ کیا۔ یہ میزائل زمین سے زمین 2750 کلومیٹر تک جوہری و روایتی ہتھیار لے کر ہدف کو نشانہ بناتا ہے، پاکستان اپنی بلیسٹک میزائل کی دور تک ہدف کو مارنے کی صلاحیت میں اضافہ کررہا ہے، اگرچہ حکومت پاکستان کبھی اپنی اس صلاحگیت کا اظہار دفاعی اصولوں کی بنیاد پر نہیں کرتا اور غیرملکی دفاعی تجزیہ کار بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان اپنے زیادہ فاصلے کے میزائل بنانے کی صلاحیت کا اظہار نہیں کرتا اگرچہ اْس کی صلاحیت بھارت کے مقابلے میں بہترین اور قابل اعتماد ہے۔
پاکستان نے شاہین اول اور شاہین دوئم میزائلوں کے کامیاب تجربات بھی کئے، شاہین دوئم ڈیڑھ ہزار کلومیٹر تک جوہری ہتھیار لے جاسکتا ہے، شاہین سوئم کا تجربہ بحیرۂ عرب میں کیا گیا اور ایک امریکی تھینک ٹینک کا خیال ہے کہ پاکستان کی یہی رفتار رہی تو اس کے پاس 2020ء میں 200 تک جوہری ہتھیار ہوجائیں گے۔ اس کے علاوہ 13 مارچ 2015ء کو پاکستان نے مقامی طور پر تیار کردہ ڈرون ’’براق‘‘ اور لیزر گائیڈڈ ’’برق‘‘ کا کامیاب تجربہ کیا۔ میزائل نے ساکت اور متحرک اہداف کو نشانہ بنایا۔ براق اور برق لیزر گائیڈڈ میزائل کو ہر موسم کے لحاظ سے کارآمد بنایا گیا ہے۔
جوہری ہتھیار
دنیا میں ہتھیاروں کی صورتحال اور عالمی سلامتی کا تجزیہ کرنے والے سویڈین کے ادارے سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سیپری) کی 2018 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے پاس بھارت سے زیادہ جوہری ہتھیار ہیں، ساتھ ہی پاکستانی جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت، استبداد، ہدف کو نشانہ بنانے کی 100 فیصد صلاحیت اور تنصیب سے لانچ کرنے تک کا محدود وقت پاکستان کو بھارت پر سبقت دلاتا ہے۔سیپری کے جوہری عدم توسیع، آرمز کنٹرول اور ڈس آرمامنٹ پروگرام کے سربراہ شینن کائل کے مطابق دنیا میں جوہری ہتھیاروں کی مجموعی تعدار میں کمی آئی ہے لیکن جنوبی ایشیا میں اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔
انھوں نے کہا ’سنہ 2009 میں انڈیا کے پاس 60 سے 70 کی تعداد میں جوہری بم تھے جبکہ پاکستان کے پاس اس وقت تقریباً 60 بم تھے لیکن سنہ 2019 میں ان دس برس کے دوران دونوں ملکوں نے اپنے جوہری بموں کی تعداد دگنی کر لی ہے۔‘شینن کائل نے بتایا کہ پاکستان کے پاس اب انڈیا سے زیادہ جوہری بم ہیں ’مختلف ذرائع سے جمع کی گئی معلومات کی بنیاد پریہ کہا جاسکتا ہے کہ انڈیا میں اس وقت 130 سے 140 جوہری بم ہیں جبکہ پاکستان میں جوہری بموں کی تعداد 150 سے 160 تک پہنچ گئی ہے۔‘انڈیا اور پاکستان میں جوہری ہتھیاروں کا پروگرام اولین بجٹ ترجیحات میں شامل ہے۔ لیکن حکومتیں ان پروگراموں پر کتنا خرچ کر رہی ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
دوسری جانب امریکہ، روس اور انگنینڈ کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں گزشتہ برس کے مقابلے کمی آئی ہے۔ امریکہ کے پاس اس وقت 6185 جوہری بم ہیں جبکہ روس کے پاس 6500 ہیں۔ انگلینڈ کے جوہری بموں کی تعداد 200 اور فرانس میں 300 بم ہیں۔ چین کے پاس 290 جبکہ اسرائیل نے 80 سے 90 بم بنا رکھے ہیں۔ شمالی کوریا کے بارے میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس نے 20 سے 30 جوہری بم بنا لیے ہیں۔