میڈیا رپورٹس کےمطابق افغانستان کےدارالحکومت کابل میں ہفتےکی شب شادی کی ایک تقریب میں ہونے والے خودکش حملے میں پولیس کے مطابق کم سے کم 63 افراد جاں بحق اور 200 کے قریب زخمی ہو گئے ہیں، عینی شاہدین کے مطبق ایک خود کش بمبارنےشادی کی تقریب میں خود کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیا۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے صحافیوں کو دیے گئے ایک پیغام میں اس دھماکے کی شدید مذمت کی اور اس میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے،ان کا کہنا تھا کہ ایسے بہیمانہ حملوں کے ذریعے جان بوجھ کر عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنانے کا کوئی جواز نہیں ہے، جبکہ افغان صدر اشرف غنی کہتے ہیں کہ طالبان کی تردید سے کچھ نہیں ہوتا یہ کارروائی ان کی ہی ہے مذاکرات کے باوجود طالبان کی جانب سے اس طرح کے حملے بتاتے ہیں کہ امن عمل میں طالبان سنجید نہیں ہیں۔
میڈیا کے مطابق خودکش حملہ اہل تشیع کےاکثریتی علاقے میں ہزارہ کمیونٹی کی تقریب میں مقامی وقت کے مطابق رات دس بج کر چالیس منٹ پر ہوا، یہ خودکش حملہ صرف دس روز قبل کابل پولیس سٹیشن کے باہر ہونے والے بم دھماکے کے بعد ہوا ہے جس میں کم از کم 14 افراد ہلاک اور 150 زخمی ہو گئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی تھی،افغان شادیوں میں اکثر سینکڑوں مہمان شریک ہوتے ہیں جو کہ بڑے ہالز میں جمع ہوتے ہیں اور عام طور پر مرد، خواتین اور بچوں سے الگ ہو جاتے ہیں۔
شادی میں آئے ایک مہمان محمد فرہاغ کے مطابق وہ خواتین والے حصے میں موجود تھے جب انھوں نے دھماکے کی آواز سنی،انھوں نے بتایا ’ہر کوئی چیختا اور روتا ہوا باہر کی طرف بھاگا۔،تقریباً 20 منٹ تک ہال دھویں سے بھرا رہا۔ مردوں والے حصے میں تقریباً ہر کوئی یا تو مر چکا تھا یا زخمی تھا۔ دھماکے کے دو گھنٹے بعد لاشوں اور زخمیوں کی منتقلی کا کام پورا نہیں ہوسکتا تھا۔
یہ حملہ اس وقت ہوا ہے جب 12 اگست کو امریکہ طالبان امن مذاکرات کا نہایت مثبت دور ختم ہوا اور بات امن معاہدے تک پہنچ چکی ہے طالبان اور امریکی نمائندوں نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن مذاکرات میں بہترین پیشرفت کی اطلاع بھی دی ہے، جس کے جواب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعے کو ٹویٹ میں لکھا کہ دونوں فریق ’معاہدہ کرنا چاہتے ہیں، اگر ممکن ہوا تو۔‘
اس معاہدے میں طالبان کی جانب سے یقین دہانی کہ وہ افغانستان کو امریکی اہداف پر حملے کرنے کے لیے استعمال نہیں کریں گے سمیت افغانستان سے مرحلہ وار امریکی فوجی دستوں کی واپسی شامل ہے۔اس معاہدے کے تحت طالبان افغان وفد کے ساتھ جنگ بندی سمیت امن کے فریم ورک پر بات چیت کا آغاز بھی کریں گے۔
ایسے وقت جب امن عمل اپنے تکمیل کے مراحل میں ہے اور طالبان نے افغانستان میں اپنے حملوں کی بندش کا وعدہ بھی کیا ہے اس وقت یہ شدید حملہ امن عمل کو متاثر کرنے کے ساتھ یہ سوال بھی پیدا کرتا ہے کہ افغانستان میں ایسی کون سی قوتیں کارفرما ہیں جو امن کی خواہاں نہیں اور مزاکرات کو ناکام کرنا چاہتی ہیں۔