مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی حکومت کےلگائے گئےسخت کرفیو کو 14 روز گزرگئے ہیں ،مقامی کشمیریوں کو گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں سڑکیں گلیاں سنسان، کاروبار زندگی مکمل مفلوج ہے،کھانے پینےکی اشیاء اورادویات کی قلت پیدا ہوچکی، اسکول کالجز بند ہیں، یعنی کشمیر کشمیریوں کیلئے ایک جیل بنا دیا گیا ہے۔ لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ اتنے سخت کرفیو زدہ علاقےمیں جہاں سب کچھ بند ہےباہرکےلوگوں کو اندرآنےاوراندر کےلوگوں کو باہر جانے کی اجازت نہیں تو پھر یہ نئی دلی سے یومیہ 26 پروازوں اور زمینی راستے سے روزانہ 70 بسوں کے ذریعے کون لوگ ہیں جو سری نگر جارہے ہیں۔۔۔؟؟
سری نگر کیلئے یومیہ 14 ہزار بھارتیوں کی روانگی
اطلاعات کےمطابق بھارت سرکارنےسری نگرکیلئےفضائی کرایوں میں بھی نمایاں کمی کردی ہے اور جو ٹکٹ پہلے 3 ہزار 5 سو بھارتی روپے میں تھا وہ اب 1400 سے 1700 روپے کا کردیا گیا ہے، یومیہ 26 پروازوں میں تقریباً 6 ہزار افراد فضائی راستے سے جبکہ بسوں کے ذریے 8 ہزار افراد روزانہ سری نگر جارہے یا بھیجے جارہے ہیں، اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ 2 ہفتوں کے دوران تقریبا ایک لاکھ افراد یکطرفہ ٹکٹ لے کر سری نگر گئے ہیں اور ان مسافروں میں کشمیریوں کی تعداد شاید چند درجن سےزیادہ نہیں ہے۔
اس صورتحال سے ان اطلاعات اور بیانات کی تائید ہوتی ہےجس میں بھارت کے انتہا پسند رہنماوں نے کہا تھا کہ اب کشمیرکی لڑکیاں ہندووں کیلئے ہوں گی، یہ صورتحال خوفناک تو ہے ہی اس کے ساتھ ایک اورچھوٹی سی خبر آج سے ایک ماہ قبل ملی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ کشمیر میں جہاں پہلے ہی 7 لاکھ 20 ہزار فورسز تعینات ہیں وہاں فوجیوں کی شکل میں 2 لاکھ ہندو انتہا پسندوں کو بھیجا جائے گا، اور پھر 5 اگست سے پہلے دیکھا گیا کہ مودی سرکار نے جہاز بھر بھر کے فوجیوں کو سری نگر بھیجا۔
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ آرٹیکل 370 اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے منصوبے میں یہ بات شامل تھی کہ ہندو انتہا پسندوں کو مختلف روپ میں پہلے سے کشمیر بھیجا جائے گا اور انھیں وہاں ظلم و بربریت اور خواتین کے ساتھ جنسی تعلقات بنانے کی مکمل آزادی ہوگی، اس ضمن میں بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ مقبوضہ وادی میں سخت کرفیو کی تین بنیادی وجوہات مودی سرکار کی سازش کا حصہ ہیں جس میں پہلے کشمیریوں کے ممکنہ ردعمل کو روکنے کیلئے انھیں گھروں میں قید کرکے بھوک پیاس سے نڈھال کردینا، فوجیوں کے روپ میں ہندو انتہا پسندوں کو مقبوضہ وادی کے مختلف علاقوں میں پہنچانا اور اسکے بعد کشمیر میں وحشت و بربریت کا ہولناک کھیل کھیلنا ہے۔
اگرحالات یہی اور ان اطلاعات میں سچائی ہے تو پھراس کا مطلب ہےکہ مقبوضہ کشمیرمیں اندر ہی اندر مودی اور اس کے انتہا پسند حوارین کا گھناوًنا کھیل جاری ہےاورایک آتش فشاں ہےجو کشمیریوں میں بن رہا ہے ایسے میں اب ان تمام خدشات کے پورے ہونے کی پیشگوئی کی جاسکتی ہے جن کے بارے میں اب تک یہی خیال کیا جارہا تھا کہ بھارتی خباثت جتنی بھی ہو کم ازکم وہ انسانیت کے خلاف اس قسم کی درندگی نہِیں کرسکتےیا مقودی اس حد تک نہیں جائےگا لیکن موجودہ اورآنے والے حالات بتارہے ہیں کہ بھارت کی درندگی جاری ہےاورکرفیو زدہ علاقوں میں کیا کھیل کھیلا جارہا ہے اس کے حقائق بھی جب منظرعام پر آئیں گے تو اس کےبعد حالات کون سا رخ اختیارکریں اسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔
دو ہفتے میں 4 ہزار کشمیری گرفتار
دوسری جانب فرانسیسی خبر ایجنسی نے انکشاف کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے حراستی مراکز میں جگہ کم پڑ گئی ہے، صرف دو ہفتے میں چار ہزار کشمیری پابند سلاسل کر دیے گئے،رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیش تر کشمیریوں کو مقبوضہ وادی سے باہر قید کیا گیا ہے،بتایا گیا ہے کہ دو ہفتے قبل جب بھارت نے وادی کی خود مختاری سلب کر لی تھی تو اس کے بعد سے بھارت مسلسل اس خوف میں مبتلا ہے کہ کشمیر میں اس کے خلاف بدامنی کی صورت حال نہ پیدا جائے۔
کشمیریوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے جو ایک متنازعہ قانون ہے جس کے تحت کشمیری باشندوں کو دو سال تک بغیر کسی الزام اور ٹرائل کے قید کیا جا سکتا ہے،اُدھر بھارتی حکام کی جانب سے مسلسل انکار کیا جا رہا ہے کہ کتنے کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا ہے، اس کے برعکس ابتدائی چند دنوں میں 100 سے زاید مقامی سیاست دانوں، ایکٹوسٹس اور ماہرین تعلیم کو گرفتار کیا گیا تھا۔
خبر رساں ادارے کے مطابق سری نگر میں پولیس اور سیکورٹی عملے سمیت حکومتی افراد نے بھی بے شمار کشمیریوں کی اندھا دھند گرفتاری کی تصدیق کی ہے،رپورٹ کے مطابق سری نگر میں 6 ہزار گرفتار کشمیریوں کا مختلف مقامات پر طبی معائنہ بھی کرایاگیا ہے،گرفتار شدگان کو پہلے سری نگر جیل میں رکھا گیا تھا، بعد ازاں فوجی طیاروں میں انھیں کشمیر سے باہر لے جایا گیا،یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بہت سارے کشمیری پولیس اسٹیشنز میں بھی زیر حراست رکھے گئے ہیں، جن کی تعداد ان چار ہزار کشمیریوں سے الگ ہے۔