امریکی محکمہ خارجہ کے عہدے دارجو حال ہی میں خطے کا دورہ کر کے واپس لوٹے ہیں۔انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ امریکا کو مقبوضہ کشمیر میں گرفتاریوں اور مسلسل پابندیوں پر گہری تشویش ہے۔ امریکا انفرادی حقوق کے احترام، قانونی طریقہ کار پر عمل اور تمام فریقوں پر مشتمل جامع مذاکرات پر زور دیتا ہے ۔
اس موقع پر امریکی عہدے دار نے بھارت سے وادی میں گرفتار افراد کو فوری طور پر رہا اوربنیادی آزادیاں بحال کرنے کا مطالبہ بھی کیا،انہوں نےکہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی توجہ مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کی صورت حال پر مرکوز ہےلہذا جموں وکشمیر میں سیاسی معمولات بحال کیے جائیں چاہےوہ ابتدا میں بطوروفاقی علاقہ ہو لیکن بعد میں ریاست کے طور پر ہونے چاہئیں۔
اُدھر میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کےایک سینیئر عہدے دارکا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرنا داخلی معاملہ ہوسکتا ہےمگراس کے مضمرات ہیں جو بھارتی سرحد سے باہر نکل گئے ہیں، انہوں نے کہا کہ امریکا سرحد پار دہشت گردی سے متعلق بھارت کے خدشات سے آگاہ ہے لیکن زور دیتا رہے گا کہ جتنا جلد ممکن ہو بھارت خطے میں صورت حال معمول پر لائے۔
امریکی سینیئرعہدے دار کا کہنا تھا کہ امریکا ایک تنازع کےہوتےہوئے دوایٹمی طاقتوں کےدرمیان سیکیورٹی کےمعاملات کو کبھی سرسری نہیں لیتا،یہ تنازع دونوں کو تقسیم کر رہا ہے اور کئی دہائیوں سے تقسیم کر رکھا ہے۔
کشمیر کا تنازع عالمی عدالت میں لےجانےکے پاکستان کے فیصلے سے متعلق امریکی عہدے دار نے کہا کہ پاکستان اپنے فیصلے میں خود مختار ہے،لیکن امریکا کا خیال ہے کہ کثیر الجہتی بنانے سے مسئلہ کشمیرکےحل میں مدد نہیں ملے گی بلکہ اس پر دوطرفہ بات چیت ہونی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دونوں فریقوں کی جانب سےاقدامات کوسمجھنےاورشفافیت کی ضرورت ہے اور امریکا طویل عرصے سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان براہ راست مذاکرات پر زور دیتا رہا ہے، انہوں نے یہ بات بھی واضح کردی کہ دونوں فریقین کے درمیان صدر ٹرمپ ثالثی نہیں کررہے بلکہ ثالثی کی پیشکش کی ہے۔
یاد رہے کہ فرانسیسی خبر رساں ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق 5 اگست سے اب تک مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز نے 4 ہزار ے زائد افراد کو گرفتار کیا ہے جبکہ کشمیر کے تمام رہنما یا تو نظر بند ہیں یا انھیں بھی جیلوں میں رکھا گیا ہے جبکہ وادی میں سخت کرفیو کو 17 روز گزر چکے ہیں۔