سامراجی طاقتوں کا اصول یہ رہا ہے کہ یہ جب کسی ملک یا علاقے پر حملہ کرکے، اس ملک یا علاقے پر قبضہ کرتے ہیں تو اُس ملک میں جبر اور ظلم کی شکار مذھبی و نسلی گروہوں کے سامنے خود کو نجات دہندہ بناکر پیش کرتے ہیں اور اُن کی آزادی کا ڈھونگ اچھے سے رچاتے ہیں، سامراجی طاقت کا پروپیگنڈا سیل یعنی اُن کا نام نہاد مین سٹریم میڈیا مجبور و محکوم نسلی و مذھبی گروہوں کے اندر سے چند نمائشی چہرے تلاش کرکے پوری دنیا کو اُن کی زاتی ترقی و اہلیت کو اُن نسلی و مذھبی گروہوں کا پوسٹر بنا ڈالتا ہے
اس دوران سامراج اُس ملک یا اُس علاقے میں جن گروہوں کو تہذیب و ترقی کے دُشمن گردانتا ہے اُن کے خلاف لڑائی کے نام پر جب خطے کی علاقائی طاقتوں اور بین الاقوامی طور پر اپنی حریف طاقتوں کی اشیر باد حاصل کرلینے والوں کی مزاحمت کا سامنا کرتا ہے تو بے پناہ فوجی طاقت سے اُس مزاحمت کو کچلنے کی کوشش کرتا ہے اور وہ اپنے سامنے کھڑے ہونے والی ہر طاقت کو دہشت گرد، جنونی، ترقی کے دُشمن کالیبل لگاکر ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس دوران اُس ملک یا علاقے کے لوگوں میں پائے جانے والی نسلی و مذھبی ولسانی تضادات کو تیز کرتا جاتا ہے اگر قبضہ اکثریت کے نام پر حکمرانی کرنے والوں سے چھینا گیا ہو تو اُس اکثریت کے ساتھ کسی معاملے میں تضاد میں کھڑی اقلیت کو ڈھال بناکر آگے رکھ لیا جاتا ہے-
اور پھر جب سامراج کسی ملک یا علاقے میں پھنس جائے اور حالات اُسے مزید قبضہ رکھنے کی اجازت نہ دے رہے ہوں تو وہ اکثر و بیشتر جن گروہوں کو ختم کرنے کے نعرے لگاتا آیا ہوتا ہے ان ہی سے اشتراک اور صلح کا راستا تلاش کرتا ہے اور ایک دم سے ان نسلی و مذھبی گروہوں کو اُن کے جانی دُشمنوں کے رحم و کرم پر چھوڑ جاتا ہے- اور یہ نسلی یا مذھبی گروہ جو سامراج کی آمد سے قبل بدترین جبر اور ظلم کا شکار ہوتے ہیں، مزید بلکہ اکثر اُس سے بھی زیادہ بدتر صورت حال کا شکار ہوجاتے ہیں- اور اس پر عالمی سطح پر اُن کو تنہائی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے
ہم نے افغانستان کے اندر یہ معاملہ جنیوا معاہدے کے ہونے کے بعد دیکھا-ایک طرف سوویت روس اپنے اتحادی سوشلسٹ، کمیونسٹ اور قوم پرست اتحادیوں کو چھوڑ کر چلا گیا تو دوسری جانب سوویت روس کے خلاف بنے اتحادیوں کو امریکہ نے بھی اُن کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا اور اس دوران سب سے طاقتور تھے مجاہدین کے گروہ اور وار لارڈز اور یہ دونوں گروہ نہ صرف کمیونسٹوں پر ٹوٹ پڑے بلکہ انھوں نے افغانستان کی نسلی و مذھبی اقلیتوں کو بھی نشانے پر رکھ لیا
ہزارہ افغان برادری ایک طرف تو نسلی اعتبار سے افغانستان کے سب سے بڑے نسلی گروہ پشتون سے مختلف ہے اور پھر مذھبی اعتبار سے یہ شیعہ ہے جو افغان پختون گروہ میں بھی چھوٹی سی اقلیت ہی ہے
امریکہ سامراج نے سوویت یونین کی حامی قوتوں کے خلاف بنیادی طور پر وہابی سلفی-دیوبندی عسکریت پسندی کو پراکسی کے طور پر استعمال کیا جس نے بتدریج فرقہ پرستوں کو طاقتور کیا اور سوویت افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان کی خانہ جنگی کے دوران جب افغان طالبان کا ظہور ہوا تو سب سے زیادہ جس نسلی گروہ نے جانی و مالی نقصان اٹھایا وہ ہزارہ قبائل تھے جن کی شیعہ مذھبی شناخت کو افغان طالبان کے مفتی اعظم نے ارتداد قرار دے کر اُن کے جان و مال کو مباح قرار دے ڈالا
جس طرح پورے افغانستان میں عورتیں، مرد اور بچے طالبان کی بنیاد پرستانہ اور وہابی ازم پر مشتمل ریڈیکل مذھبی تنگ نظری کا نشانہ بن رہے تھے ویسے ہی مذھبی اقلیتیں بن رہی تھیں
ایک زمانہ تھا کہ طالبان کے ابھار کو پاکستان، امریکہ، سعودی عرب، چین اور دیگر طاقتیں افغانستان می جاری خانہ جنگی کا متبادل ایک مستحکم نظام کے طور پر دیکھ رہی تھیں، اگرچہ مغربی دنیا نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا تھا لیکن انھوں نے طالبان کا راستا روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی تھی
لیکن جب افغانستان میں القاعدہ سمیت دنیا بھر کے گلوبل جہادی جمع ہوگئے اور افغان طالبان کے کنٹرول والے علاقے گلوبل جہادیوں کا بیس کیمپ بنکر امریکی مفادات کے آڑے آنے لگے تو اُس وقت امریکی سامراج نے افغانستان پر دوبارہ فوکس کرنا شروع کیا
نائن الیون ہوا تو امریکی سامراج عورتوں اور نسلی و مذھبی اقلیتوں کا نجات دہندہ کا ماسک پہن کر افغانستان میں داخل ہوا
اس نے افغانستان کے مختلف نسلی گروہوں کی نمائندگی کے نام پر اپنی کٹھ پتلیاں لاکر افغان حکومت تشکیل دی
یہ افغانستان میں لبرل جمہوریت لانے اور افغانستان میں بنیاد پرستی، مذھبی جنونیت اور مذھبی دہشت گردی کے خاتمے کے نعرے لگاتا ہوا داخل ہوا
امریکہ سامراج خود کو افغانستان کی نسلی و مذھبی اقلیتوں کا نجات دہندہ بتلاتا رہا
لیکن آج یہ جن کو ختم کرنے آیا تھا اُن سے براہ راست مذاکرات کررہا ہے- اور صاف صاف ایسا لگتا ہے سامراجی قبضوں کی تاریخ کے مطابق یہ جن کی نجات کا دعوٰی کرتا تھا اُن کو اُن طاقتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر جارہا ہے جن کے خاتمے کے لیے اس نے افغانستان پر حملہ کیا تھا
امریکی سامراج اور اس کے اتحادیوں نے یہی عمل شام میں شامی کردوں کے ساتھ کیا- آج شامی کرد ایک طرف ترکی کی بربریت کا شکار ہیں تو دوسری طرف اُن پر داعش اور دیگر جہادی حملہ آور ہیں
امریکی سامراج یہی کہانی عراق میں بھی دوہرا چُکا- آج خود بغداد شہر کنکریٹ کی بڑی بڑی دیواروں کے ساتھ منقسم علاقوں کا شہر ہے کہ جہاں آبادی شیعہ اور سنی کے نام پر بُری طرح سے تقسیم ہے جبکہ پورا عراق نسلی و مذھبی تقسیم کے گہرے ہونے کے سبب ایک ایسے مرض میں مبتلا ہے جس کا ازالہ ہونے میں کئی برس بیت جائیں گے
ہزارہ قبائل امریکی افواج کے چلے جانے کے بعد جس صورت حال سے دوچار ہوں گے، اُس کا عکس ہمیں اب بہت واضح نظر آنے لگا ہے-
نسلی اور مذھبی اعتبار سے افغان طالبان کے لیے یہ خاصا اجنبی اور خاص اہمیت نہ رکھنے والا گروہ ہے بلکہ یہ افغان طالبان کی مونو لتھک ثقافت کے لیے خطرہ بھی ہے، اس لیے اُس کے ہاں ہزارہ قبائل کے لیے ہمدردی کا احساس آج بھی ناپید نظر آتا ہے
داعش افغانستان کی جانب سے افغان شیعہ پر بالعموم اور ہزارہ قبائل پر بالخصوص جتنے دہشت گرد حملے ہوئے افغان طالبان نے ان واقعات پر جو بیانات جاری کیے وہ وضاحت لیے ہوئے تھے، اُن میں مذمت، دکھ، ہمدردی کے عناصر غائب تھے
“حملہ ہم نے نہیں کیا، ہم عورتوں اور بچوں کو نشانہ نہیں بناتے”
افغان طالبان کی بہت ہی نپی تُلی بیان بازی یہ ظاہر کردیتی ہے کہ اُسے داعش کے ہاتھوں افغانستان کے اندر ہزارہ قبائل کی تباہی و بربادی پر نہ تو دُکھ ہے اور نہ ہمدردی وہ تو بس اُن کے قتل اور بربادی سے خود کو بری الذمہ قرار دیتی ہے
ہزارہ قبائل پر افغانستان کے دارالحکومت میں اُن کی رہائشی کالونیوں اور علاقوں پر جتنے سنگین اور خوفناک دہشت گرد حملے ہوئے یہ حملے اگر امریکی سامراج کی افغانستان میں داخلے کے فوری بعد ہوئے ہوتے تو کیا سامراج اتنا ہی ٹھنڈا ردعمل دیتا جتنا اب دے رہا ہے؟
امریکی سامراج کی یہ تاریخ ہے کہ یہ جہاں سے نکلتا ہے وہاں پر اپنی چھتر چھایہ والی کمیونٹی کو اُس کے دشمنوں کے آگے بے دست و پا ڈال دیتا ہے- اور یہ نظارہ بدقسمتی سے ہم ایک بار پھر افغانستان کے اندر دیکھنے جارہے ہیں
کسی بھی ملک میں مذھبی و نسلی اقلیتوں اور مجبور و محکوم قومیتوں کے ساتھ جب اُس ملک کی مجموعی ورکنگ کلاس کی نمائندگی کرنے والی سیاسی جماعتیں اور گروپ اشتراک نہ بنا پائیں اور وہ مجبور و محکوم نسلی و مذھبی گروہوں کے اندر الگ تھلگ کردیے جانے اور بے گا نگی کے اولین شکار بن جانے کے احساس کو ختم کرکے ان کے ساتھ مل کر سامراج اور رجعتی طاقتوں کے خلاف حتی المقدور جدوجہد نہ کریں تو پھر منظر ویسا ہی بنتا ہے جیسا آج دیکھنے کو مل رہا ہے
لبرل دانشور اور لبرل تجزیہ نگار جو ماضی میں افغانستان، عراق پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے حملوں کو ‘مثبت پیش رفت’ کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں اور سامراجی مداخلتوں اور جنگوں بارے عوام کو گمراہ کرتے رہے، وہ آج بھی افغانستان میں سامراج اور اس کے اتحادیوں کی موقعہ پرستی، بدمعاشی اور ظلم کو کبھی سامنے لاکر ہزارہ قبائل پر آنے والی مصیبت اور بربادی کے سب سے بڑے زمہ داروں کی نشاندہی نہیں کریں گے
شیعہ ہزارہ افغان کی شادی کی تقریب میں خوفناک بم دھماکے میں جاں بحق ہونے والے اتوار کے روز آہوں اور سسکیوں کے ساتھ دفنادیے گئے
جاں بحق ہونے والوں کو گروہوں کی شکل میں قبروں میں اتارا گیا
دلہن کے والد محمد غلام کے مطابق ان کے خاندان کے چودہ افراد کل رات شادی ہال میں 11 بج کر 45 منٹ پر ہوئے خودکش بم دھماکے میں جاں بحق ہوئے جن میں غلام محمد کے بیٹے اور بھتیجے بھی شامل ہیں
دلہن کے ایک رشتے دار محمد جواد نے بتایا کہ اس کے دو بیٹے جن کی عمریں 11 اور پندرہ سال تھیں بم دھماکے میں جاں بحق ہوگئے، اس کا کہنا تھا کہ اس کے بیٹوں کا کیا قصور تھا؟
دھماکے کی ذمہ داری داعش افغانستان نے قبول کی ہے جبکہ افغان طالبان نے کہا ہے کہ اس دھماکے میں ان کا ہاتھ نہیں، وہ معصوم شہریوں بشمول بچوں اور عورتوں پر حملہ نہیں کرتے
طلوع نیوز کے صحافی تمیم حامد نے کہا ہے کہ تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانیوں کے باوجود افعان شیعہ پر دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہوا ہے، تمیم حامد کا کہنا ہے کہ 2011ء سے باقاعدہ افغان شیعہ پر دہشت گرد حملے شروع ہوئے جب ایک شیعہ مسجد پر خود کش حملہ ہوا جس کی زمہ داری لشکر جھنگوی نے قبول کی
اور گزشتہ دو سالوں میں داعش نے باقاعدہ حملوں کی زمہ داری قبول کرنا شروع کردی
صحافی تمیم حامد کا کہنا ہے کہ افغان شیعہ پر ہونے والے دہشت گرد حملوں کی ابتک کوئی ایک بھی تحقیقات باقاعدہ انجام کو نہیں پہنچی جس سے حکومت پر تنقید میں اضافہ ہورہا ہے
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ موجودہ افغان حکومت کو کابل میں شیعہ آبادی کی اکثریت کے علاقوں کی سیکورٹی سے زیادہ دلچسپی نہیں ہے
سابق مجاہد لیڈر حکمت یار نے کنڑ میں منعقد ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ داعش کے نام پر ملک میں سرگرم دہشت گرد افغانستان کی عوام کو شیعہ اور سنی کی بنیاد پر تقسیم کرکے باہم خانہ جنگی کو مزید بدتر بنانا چاہتے ہیں اور حکومت کو شیعہ برادری کے تحفظ کے لیے خاطر خواہ اقدامات اٹھانے چاہیں ورنہ امن پروسس سبوتاژ ہوجائے گا
صرف ایک ہفتہ پہلے مجھے وٹس ایپ پر ایک افغان صحافی نے سوال کیا تھا کہ آپ افغان طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی کامیابی بارے خاصے امید پرست ہیں اور اب جبکہ امریکہ اور افغان طالبان میں مذاکرات کا فائنل راؤنڈ ہوگیا اور طالب کہہ رہے ہیں کہ اعلامیہ جلد جاری ہوجائے گا تو اس سارے امن معاہدے میں افغانستان کی نسلی و مذھبی اقلیتوں کا کیا بنے گا؟
وہ بہت زیادہ سپیسفک ہوکر ہزارہ برادری کے بارے میں پوچھ رہا تھا
یہ ایک ایسا سوال ہے جو خود میرے اپنے من میں بار بار اٹھ رہا تھا، اُس صحافی دوست کا کہنا تھا کہ 2011ء سے لیکر 2019ء آگیا اور افغان ہزارہ شیعہ پر حملوں میں شدت میں اضافہ ہوا ہے اور ان کے علاقوں میں بڑی آسانی سے دہشت گردی کی وارداتیں ہورہی ہیں ہزارہ شیعہ برادری کی افغانستان کے دارالحکومت میں ہزارہ شیعہ کی مساجد، تعلیمی ادارے، شادی کی تقریبات، ریسلنگ، باکسنگ کے لیے بنائے ہال ، فٹبال کے لیے بنے گراؤنڈ سب حملوں کی زد میں ہیں لیکن ان کی روک تھام نہیں ہوپارہی تو بعد میں کیا ہوگا؟
ٹھیک ایک ہفتے بعد ایک اور خون آشام واقعہ ہوا اور پھر نشانہ شیعہ ہزارہ بنے