آج ہم آپ کو دنیا کے طویل ترین دریا اوراس کے حوالے سے کچھ دلچسپ تفصیلات سے آگاہ کرتے ہیں ،قدیم لوگوں کو علم ہی نہیں تھا کہ دریائے نیل کہاں سے نکلتا ہے، حالاں کہ ہزاروں سال سے لوگ اس کی وادی میں رہتے بستے آئے تھے،تہذیبیں جنم لیتی رہیں اور مٹتی رہیں، مگر کسی نے یہ دریافت کرنے کی کوشش نہیں کہ یہ کہاں سے نکلتا ہے، کن کن مقامات سے گزرتا ہے۔۔؟؟
نیل کے شق ہونے کا واقعہ
یہی وہ دریا ہےجس میں فرعون کا لشکر غرق ہوا تھا، فرعون جس کوصرف اپنی حکومت وبادشاہت ہی کا غرورنہیں اپنی خدائی اورربوبیت کا بھی دعویٰ تھا وہ نبی اللہ کی ضربِ کلیمی کو برداشت نہ کرسکا اور حضرت موسیٰ ؑ اور بنی اسرائیل پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے شروع کر دئیے۔ حضرت موسیٰ ؑ صبر واستقلال کے ساتھ دینِ حق کی تبلیغ کرتے رہے،اسی دوران یہ حکم نازل ہوا کہ بنی اسرائیل مصریوں سے علیحدہ اپنی بستی آ باد کریں اور مصر سے نکل جانے کا حکم ہوا۔ نیز یہ بھی بتا دیا گیا کہ فرعون کی طرف سے تمھارا تعاقب کیا جائے گا لیکن وہ اور اس کا لشکر غرقاب ہو گا۔ وہی ہوا ۔ آ پ ؑ مصر سے معہ اپنے ساتھیوں کے روانہ ہوئے تو پیچھے پیچھے فرعون اپنے لاؤ لشکر سمیت تعاقب کر رہا تھا۔ جب بحر قلزم کے قریب حضرت موسیٰ ؑ پہنچے تو آ پ ؑ نے ( خدا کے حکم کے تحت) اپنے عصاکو پانی پر مارا جس سے سمندر میں ایک خشک گزر گاہ بن گئی اور آ پ معہ ساتھیوں کے گزر گئے۔ ادھر جب فرعون تعاقب کرتا ہوا اسی راستہ سے گزرا تو اﷲ نے پانی کے شگاف کو دوبارہ ملا دیا‘ اس طرح فرعون اپنے تمام کروفر کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غرق ہو گیا۔ اﷲ کی اس مدد کا ذکر قرآن میں کچھ یوں ہے: ’’ اور ہم نے موسیٰ ؑ کو حکم دیا سمندر میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ اتر جاؤ ‘ اسے دو حصوں میں پاٹ دیا ‘ہر حصہ جیسے اونچی اور ہم باقیوں کو اس تک لے آ ئے۔ ‘‘
شاعر مشرق علامہ اقبال نےاپنےکلام میں دریائے نیل کا ذکرکئی جگہوں پر کیا ہے،بانگ ِدرا کی نظم ماہ نو میں کچھ اسطرح وہ کہتے ہیں۔
ٹوٹ کرخورشیدکی کشتی ہوئی غرقاب نیل
ایک ٹکڑا تیرتا پھرتا ہے روئے آبِ نیل
طشت گردوں میں ٹپکتا ہےشفق کا خو ناب
نشترقدرت نے کیا کھولی ہے فصد آفتاب
چرخ نے بالی چُرالی ہے عروس شام کی
نیل کےپانی میں یا مچھلی ہےسیم خام کی
دریائے نیل دنیا کا سب سے طویل دریا ہے جو براعظم افریقا میں واقع ہے،یہ دو دریاؤں نیل ابیض اور نیل ازرق سے مل کر تشکیل پاتا ہے، لیکن نیل ازرق ہی دریائے نیل کے بیشتر پانی اور زرخیز زمینوں کا سبب ہے لیکن طویل اول الذکر دریا ہے۔ نیل ابیض وسطی افریقا میں عظیم جھیلوں کےعلاقے میں جنوبی روانڈا سے نکلتا ہے اور شمال کی جانب تنزانیہ، یوگینڈا اور جنوبی سوڈان سے گذرتا ہے جبکہ نیل ازرق ایتھوپیا میں جھیل ٹانا سے شروع ہوتا ہوا جنوب مشرق کی سمت سفر کرتے ہوئے سوڈان سے گذرتا ہے۔ یہ دونوں دریا سوڈان کے دار الحکومت خرطوم کے قریب آپس میں ملتے ہیں۔
دریائے نیل کا شمالی حصہ سوڈان سے مصر تک مکمل طور پر صحرا سے گذرتا ہے۔ جنوبی مصر میں اس دریا پر مشہور اسوان بندتعمیر کیا گیا ہے جو 1971ء میں مکمل ہوا۔ اس بند کے باعث ایک عظیم جھیل تشکیل پائی جو جھیل ناصر کہلاتی ہے۔ یہ جھیل مصر اور سوڈان کی سرحد پر واقع ہے تاہم 83 فیصد جھیل مصر میں واقع ہے جبکہ 17 فیصد حصہ سوڈان میں ہے جہاں اسے جھیل نوبیا کہا جاتا ہے۔ جھیل ناصر 550 کلومیٹر طویل اور زیادہ سے زیادہ 35 کلومیٹر چوڑی ہے۔ اس کا کل رقبہ 5،250 مربع کلومیٹر ہے جبکہ پانی کے ذخیرے کی گنجائش 157 مکعب میٹر ہے۔ مصر کی آبادی کی اکثریت اور تمام شہر اسی دریا کے کنارے آباد ہیں۔
نیل 6،695 کلومیٹر (4،160 میل) کا سفر طے کرنے کے بعد اس ڈیلٹائی علاقےسے ہوتا ہوا بحیرہ روم میں گرتا ہے،قدیم مصر کے تمام آثار قدیمہ بھی دریائے نیل کے کناروں کےساتھ ملتےہیں کیونکہ 4 ہزار سال قبل مسیح میں صحرائےاعظم کی وسعت گیری اورخشک سالی کےباعث مقامی باشندے دریائے نیل کی جانب ہجرت کر گئے جو عظیم مصری تہذیب کا پیش خیمہ بنی
دریائے نیل کے راستے میں افریقہ کی سب سے بڑی جھیل وکٹوریہ جھیل ہےاس علاقے میں بارش بہت ہوتی ہے،لہٰذا بہت گھنے جگلات پائے جاتے ہیں، ان جنگلات میں ہاتھی، شیر، گینڈے، جنگلی بھینسے، ہرن، نیل گائے اور دریائی گھوڑےمگرمچھ اور گھڑیال وغیرہ پائے جاتے ہیں۔ اس علاقے کو “نیشنل پارک” کا درجہ حاصل ہے۔
سترھویں صدی میں کوشش کی گئی کہ دریا کے نکلنے کی جگہ معلوم کی جائے تو معلوم ہوا کہ یہ دریا جھیل تانا سے نکلتا ہے،مگر اس کے کنارے کنارے کوئی چل نہ سکا، کیوں کہ یہ بڑے خطرناک پہاڑوں اور کھڈوں میں گزرتا ہے۔ دریا کے تیز پانی نے چٹانوں کو کچھ اس طرح کاٹا ہے کہ دونوں طرف دیواریں سی بن گئی ہیں اور ان چٹانی دیواروں پر سے کوئی گزر نہیں سکتا۔
اٹھارویں صدی میں یورپی سیاحوں نے افریقہ کے اندرونی علاقے دریافت کرنا شروع کیے۔ رچرڈ برٹن اور جان ہیننگ ٹن اسپیک 1857ء میں افریقہ کے مشرقی ساحل سے روانہ ہوئے۔ دشوار گزار راستوں، جنگلوں اور پہاڑوں سے گزرے، مچھروں کی وجہ سے ملیریا میں مبتلا ہوئے۔ برٹن اتنا بیمار ہوا کہ آگے نہ بڑھ سکا، مگر اسپیک چلتا رہا اور جھیل وکٹوریہ تک پہنچ گیا۔ اسپیک کے مطابق یہی جھیل دریا نیل کے نکلنے کی جگہ تھی، جس کو دنیا نے تسلیم کرلیا۔ یہ جھیل یوگنڈا میں ہے۔ کمپلا، یوگنڈا کا دارالحکومت ہے، جو اسی جھیل کے کنارے آباد ہے،دریائے نیل کے دہانے پر اسکندریہ کا شہر آباد ہے،اس کا نام سکندر اعظم کے نام پر ہے،تیسرا بڑا شہر خرطوم ہے،خرطوم کے معنی “ہاتھی کی سونڈ” کے ہیں۔ یہ سوڈان کا دارالحکومت ہے۔
جب یہ دریا سوڈان میں داخل ہوتا ہےتواس کی رفتاربہت سست ہوجاتی ہے، کیوں کہ دریا ایک زبردست دلدل سےگزرتا ہے،یہ دلدل دنیاکا سب سےبڑا دلدل ہے یعنی 700 کلو میٹر لمبا ہے،یہاں ایک قسم کی گھاس پاپائرس پائی جاتی ہے، جو پورے دلدل پر چھائی رہتی ہے،یہ اتنی گھنی اور مضبوط ہے کہ اس پر ایک ہاتھی کھڑا ہوجائے تو وہ نیچے نہیں جائے گا اور سیدھا کھڑا رہے گا۔ دریا کا پانی گھاس کے نیچےنیچے بہتا ہے،پتا نہیں چلتا کہ پانی کہاں ہے،یہاں سارس، بگلے اور پانی میں رہنے والی مختلف چڑیاں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ اسی گھاس سے کاغذ بنایا جاتا ہے۔
کئی زمانوں کے دریائے نیل چھوڑ گیا
وہ وقت تھا جومجھےلاکھوں میل چھوڑگیا
دریائے نیل کے سارے مددگاردریا، حبشہ کے پہاڑوں سے نکل کر اس میں شامل ہوتے ہیں،یہ دریا حبشہ میں جھیل تانا سے نکلتا ہے اور فوراً بعد آبشار کی صورت میں ایک نہایت گہرے کھڈ میں گرتا ہےاوربہتا ہوا خرطوم کے مقام پر دریائے نیل میں مل جاتا ہے۔ خرطوم کے بعد اتبارا کے مقام پر اتبارا نام کا ایک اوردریا، دریائےنیل میں شامل ہوتا ہے،یہ بھی حبشہ کے پہاڑوں سے جھیل تانا کے قریب سے نکلتا ہے۔
خرطوم کے بعد دریائے نیل میں کئی اُتارآتے ہیں،یہ تقریباً چھےمقامات پر ہیں،دریا کی تہہ میں بڑی مضبوط اورنوکیلی چٹانیں ہیں،ان کو دریائے نیل کی رکاوٹیں کہا جاتا ہے،ان مقامات سے کشتیاں یا موٹربوٹس نہیں گزر سکتے،سوڈان میں مصر کی سرحد پر دریائے نیل انسان کی بنائی ہوئی دنیا کی سب سے بڑی جھیل یعنی جھیل ناصر میں داخل ہوتا ہے۔ یہاں اسوان کے مقام پر اسوان بند باندھا گیا ہے۔ اس بند سے دریا کا پانی رک گیا ہے اور ایک جھیل بن گئی ہے۔ اس بند سے آب پاشی کے لیے نہریں نکالی گئی ہیں اور پانی کو سرنگوں سے گزار کر اس پانی سے بجلی پیدا کی گئی ہے۔ اسوان بند کی نہروں سے دریائے نیل کے دونوں طرف 50 میل تک کاشت کاری ہوتی ہے اور علاقہ نہایت سر سبز و شاداب اور آباد ہوگیا ہے۔ اسی وجہ سے مصر کو دریائے نیل کا تحفہ کہا جاتا ہے، جیسے ہمارے ملک میں صوبہ سندھ کو دریائے سندھ کا تحفہ کہا جاتا ہے۔
قاہرہ سے گزر کر دریا بہت خاموشی اور آہستہ آہستہ مختلف شاخوں میں بٹ کر اسکندریہ کے قریب بحیرہ روم میں گر جاتا ہے۔ دریا کی رفتار اور پانی کی کیفیت معلوم کرنے کے لیے مصری لوگ ایک پیمانہ بناتے تھے،یہ دریا کے کنارے ایک کمرا ہوتا تھا۔ اسے نیلو میٹر کہتے تھے۔ اس میں ایک سرنگ سے دریا کا پانی آتا رہتا تھا۔ اس پیمانے سے پانی کی حرارت، رنگ اور کیفیت معلوم ہوتی اور اس کا سال بھر ریکارڈ رکھا جاتا تھا۔ ریکارڈ سے معلوم ہوتا تھا کہ طغیانی آئے گی یا نہیں اور اگر آئے گی تو کیا اثرات ہوں گے۔ فصلوں کے لیے اچھی ہوگی یا نقصان دہ ہوگی۔
دریائے نیل کی بے عزتی
دریائے نیل سے مصر کے جذباتی لگاو کا اندازہ تقریباً دو سال قبل پیش آنے والے ایک دلچسپ و عجیب واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے جس میں مصر کی ایک مشہور گلوکارہ کو محض اس وجہ سے مقدمے کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ انہوں نے ایک کانسرٹ کے دوران بظاہر دریائے نیل کی ‘بے عزتی’ کی تھی، ان کے مداح نے درخواست کی کہ وہ اپنا مشہور گانا سنائیں جس میں دریائے نیل کے پانی سے متعلق ایک مصری محاورہ بھی شامل ہے،سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو کےمطابق شیرین نے مداح کو کہا کہ دریائے نیل کا پانی پینےسےانسان بیمار ہوسکتا ہے، ساتھ ہی انہوں نے ایک فرانسیسی منرل واٹر برانڈ کا حوالہ دے کر فین کو مشورہ دیا آپ کو یہ پانی پینا چاہیے۔
گلوکارہ کے ان ریمارکس پر سوشل میڈیا پر ہنگامہ کھڑا ہوگیا، ایک طرف جہاں کچھ لوگوں نے اسے ‘قومی وقار کے منافی’ قرار دیا، وہیں دیگر کا کہنا تھا کہ اصل مجرم وہ ہیں، جنہوں نے دریائے نیل کو آلودہ کر رکھا ہے،اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوجانے کے بعد ایک وکیل نے گلوکارہ کے خلاق شکایت درج کروادی جبکہ مصر کی مقامی میوزیشنز یونین نے گلوکارہ کے ریمارکس کو ‘عزیز مصر کے خلاف مضحکہ خیز مذاق’ قرار دیتے ہوئے شیرین پر ملک میں پرفارم کرنے پر بھی پابندی عائد کردی جبکہ سرکاری ٹی وی اور ریڈیو کو بھی گلوکارہ کے گانے نشر نہ کرنے کی ہدایت کی گئی ۔ بعدازاں ایک فیس بک پوسٹ کے ذریعے شیرین نے اپنے بیان پر معافی مانگ کر اپنی جان چھڑائی۔
دریائے نیل کی وسعت اور لمبائی اور کئی ممالک تک اس کی رسائی ہی تھی جس نے ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال کو متاثر کیا اور 1922 میں مسلمانوں کی حالت زار اور افراتفری کے تناظر میں انھوں نے اپنی نظم میں یہ شعر کہا کہ۔۔۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کرتابخاک کا شغر