امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے قدرتی طوفانوں کو طاقت کے زور پر روکنےکی خواہش کا اظہارکیا ہے ان کا کہنا ہےکہ امریکا کو نقصان پہنچانے والےسمندری طوفانوں کو جوہری بم سےختم کردیا جائے،اگرچہ اس دفعہ ان کی خواہش انوکھی نہیں لیکن سائنسدانوں کی رائے اس میں منقسم ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قدرتی آفات سے نمٹنے والے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے دوران امریکی ہوم سیکیورٹی اوردفاع کے ماہرین سے تجویزمانگی کہ کیا امریکا کی جانب آنے والےسمندری طوفانوں کو جوہری بم سے روکا جا سکتا ہے؟ذرائع کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے طوفان کو جوہری بم سےروکنے کےسوال پر اجلاس میں شامل تمام ماہرین اور اعلیٰ عہدیدار حیران رہ گئے اور انہوں نے چند منٹوں کی خاموشی کےبعد صدر کو بتایا کہ وہ ان کی تجویز پر سوچیں گے۔
کہنےوالےکہتےہیں کہ امریکی عہدیداران کی حیرانی شاید اس لیئے بھی ہوں کہ ٹرمپ نے علم طبیعات کی اتنی گہری بات کرکیسےکہہ دی کیوں کہ ان کا مزاج تو علم و تحقیق کا ہےنہیں وہ تو بات کرجاتے ہیں ایسے میں پہلی مرتبہ کسی علمی بات کہی ہو توحیرانی تو بنتی ہی ہے۔
ٹرمپ نے دوران اجلاس کہا کہ متعدد ہریکین طوفان امریکا کے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں اور اگر انہیں امریکی حدود میں داخل ہونے سے قبل ہی جوہری بم سے ختم یا روکا جائے تو اس کی کامیابی کے کتنے امکانات ہیں؟رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہی تجویز صدر منتخب ہونے کے ایک سال بعد 2017 میں بھی دی تھی اور ماہرین سے پوچھا تھا کہ قدرتی طوفانوں کو نیوکلیئر بم یا دیگر ہتھیاروں سے روکا جا سکتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی بات کو ابتدا میں مذاق میں لینے والے امریکی عہدیداران اس خواہش کا جواب تلاش کرنے میں سرگرداں ہیں اور کچھ پر یہ حقیقیت بھی آشکار ہوئی کہ سمندری طوفانوں سے متعلق امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز نئی اور انوکھی نہیں ہےبلکہ اس سے قبل یہ تجویز 1950 کی دہائی میں ایک حکومتی سائنسدان نے بھی پیش کی تھی، یہ تجویزاس کےبعد بھی سامنےآتی رہی لیکن سائنسدان اس بات یہی کہتے رہے کہ ایٹم بم گرا کر طوفانوں کو نہیں روکا جا سکتا،سائنسدان اپنی جگہ بالکل درست ہیں لیکن کچھ کا خیال ہےکہ ٹرمپ کا خیال غلط نہیں مسئلہ صرف اس پرعملدرآمد کا ہے جوفی الحال ممکن نہیں ہے، البتہ اس جانب تحقیق کرنےکی ضرورت ہے۔
ماہرین کاکہنا ہےکہ طوفان کو بدلنے کے لیےدھماکہ خیزمواد کےاستعمال میں فی الحال مشکل یہ ہےکہ یہ اندازہ لگانا ممکن نہیں کہ کتنی مقدارمیں اورکس وقت تونائی کا استعمال کیا جائے کہ طوفان کے زور کو توڑا جا سکے،ایک ہریکین سےجو حدت نکلتی ہے وہ دس میگاٹن جوہری بم کے برابر ہوتی ہےجو ہربیس منٹ میں دھماکےسے پھٹ رہا ہو،اگرچہ بم کی میکانکی قوت طوفان کی شدت کے برابر ہوتی ہے تاہم ‘سمندر کے اندر دور کسی خاص جگہ پر اس قوت کا نصف بھی مرکوز کرنا بڑا کام ہوگا۔’
امریکہ کی ایک سائنسی ایجنسی کا بھی یہی ماننا ہے کہ ہریکینز یعنی سمندری طوفانوں یا طوفان بادوباراں کو ختم کرنے کیلئےجوہری ہتھیاروں کےاستعمال کا خیال درست نہیں ہے،امریکہ کی نیشنل اوشیانک اینڈ ایٹماسفیرک ایڈمنسٹریشن (این او اے اے) یعنی قومی، بحری اور ماحولیاتی انتظامیہ نے کہا کہ اس کے نتائج ‘تباہ کن’ ہوں گے۔
سمندری طوفان عام طور پر امریکہ کے مشرقی ساحلوں کو متاثر کرتا ہے اور اکثر بڑی تباہی لاتا ہے،نیشنل اوشیانک اینڈ ایٹماسفیرک ایڈمنسٹریشن یا نوآ کا کہنا ہے کہ طوفان پر جوہری ہتھیار کے استعمال سے ‘طوفان کا رخ نہیں موڑا جا سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں اٹھنے والی تابکار شعائيں طوفانی ہواؤں کو مزید تیزی سے زمین کی طرف لے آئيں گی،نوآ کا کہنا ہے کہ ‘طوفان میں بدلنے سے قبل کمزور ٹراپیکل لہروں یا ہوا کے دباؤ کو بھی نشانہ بنانا زیادہ سود مند نہیں ہے۔’
اس کا کہنا ہے کہ ‘ہر سال بحر اوقیانوس میں اس قسم کے تقریبا 80 اضطراب پیدا ہوتے ہیں جن میں سے تقریباً صرف پانچ ہی ہریکین بنتے ہیں۔ پہلے سے یہ بتانے کا کوئی طریقہ نہیں کہ سمندر کی کون سی ہلچل ہریکین کی صورت اختیار کر لے گی۔ بحر اوقیانوس کے ہریکین کا موسم یکم جون سے شروع ہو کر نومبر کے اخیر تک رہتا ہے۔ اس کا شباب سمتبر میں آتا ہے جب سمندر کا درجۂ حرارت سب سے زیادہ ہوتا ہے۔
لیکن کچھ سائنسدان یہ ضرور کہتے ہیں کہ یہ خیال اتنا بُرا بھی نہیں بس ہمیں معلوم نہیں کہ کیسے کیا جائے امید ہے ایک دن ایسا آئےگا جب سمندرکےاندر دورہی کسی ہریکین کو جوہری بم سے اڑا دیا جائےگا۔