بھارتی سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے معاملے کی سماعت اکتوبرمیں ایک پانچ رکنی آئینی بینچ کرے گا، تاہم میڈیا سمیت رابطوں پر پابندی کے حوالے سےوفاقی حکومت سات دن میں جواب جمع کرائےسپریم کورٹ نے حکومت کی جانب سے اندرونی ثالث مقرر کرنے کی درخواست بھی مسترد کردی ہے۔
چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے یہ حکم بدھ کو انڈین آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے اور وہاں جاری سکیورٹی لاک ڈاؤن کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران دیا ہے،ایم ایل شرما کی درخواست پر سماعت کے دوران سولیسٹر جنرل اور اٹارنی جنرل کا کہنا تھا حکومت اس سلسلے میں جواب داخل کرے گی۔ تاہم سولیسٹر جنرل نے یہ بھی کہا کہ ’اگر نوٹس جاری کیا جاتا ہے تو سرحد پار بھی اس کے اثرات مرتب ہوں گے اور اس کا غلط استعمال کیا جائے گا۔‘
سپریم کورٹ نے کہا کہ عدالت اس معاملے کو سننا چاہتی ہے لیکن اس کی سماعت پانچ رکنی بینچ اکتوبر میں کرے گا،عدالت نے اس کے علاوہ کشمیر ٹائمز کی ایگزیکٹیو ایڈیٹر انورادھا بھسین کی جانب کشمیر میں عائد پابندیوں کے حوالے سے جمع کروائی گئی درخواست پر مرکزی اور جموں و کشمیر کی حکومت کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے سات دن میں جواب طلب کر لیا ہے اور کہا ہے کہ پانچ رکنی بینچ اس معاملے کی سماعت کرے گا۔
سپریم کورٹ میں انورادھا بھسین کےعلاوہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کےرہنما سیتا رام یچوری،کانگریس کے رہنما تحسین پوناوالا، کشمیرسے تعلق رکھنے والےسیاستدان اورسابق سرکاری ملازم شاہ فیصل کےعلاوہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی طالبعلم رہنما شہلا رشید کی درخواستوں پر سماعت ہوئی۔
ان دس کے قریب درخواستوں میں جہاں انڈین آئین کی شق 370 کے خاتمے کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے وہیں خطے میں اس فیصلے کی وجہ سے جاری کرفیو اور ذرائع مواصلات کی بندش کی وجہ سے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہونے کی بات بھی کی گئی ہے،درخواستوں کی سماعت کے دوران انڈین چیف جسٹس نےکہا ہے کہ یہ بات سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ یہ بہت بڑی ذمہ داری کا معاملہ ہے،عدالت نےسماعت کےدوران یہ بھی کہا ہےکہ اگرکوئی شخص ملک کےکسی بھی حصے کا سفرکرنا چاہےتواسےاس کی اجازت ہونی چاہیے۔ عدالت نے ایک درخواست گزار محمد علمی سید کو اپنے والدین سے ملاقات کے لیے اننت ناگ جانے کی اجازت بھی دی اور حکومت سے انھیں تحفظ فراہم کرنے کو کہا ہے۔
اس کے علاوہ عدالت نے سیتا رام یچوری کو بھی اپنی جماعت کے اس رکن اسمبلی سے ملاقات کی اجازت دی جو مبینہ طور پر کشمیر میں زیرِ حراست ہیں،تاہم چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سیتا رام کسی اورمقصد کے لیے نہیں صرف اپنی جماعت کے رہنما سے ملنے کشمیر جا سکتے ہیں،خیال رہے کہ 13 اگست کو متفرق درخواستوں پر سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے فوری طور پر کوئی حکم جاری کرنے سے انکار کر دیا تھا عدالت عظمٰی کے تین رکنی بنچ نے کہا تھا کہ کشمیر کی صورتحال حساس ہے اس لیےحالات معمول پر آنے تک انتظار کرنا چاہيے۔
مودی سرکار کی انتہا پسند حکومت نے5 اگست کو انڈین آئین میں کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی شق کے خاتمے کے اعلان کے ساتھ اسے مرکز کے زیرِ انتظام علاقہ بنانے کا اعلان کیا تھا۔انڈین حکومت کے اس اعلان سے چند دن پہلے سے ہی کشمیر میں انتہائی سخت سکیورٹی لاک ڈاؤن جاری ہے۔
کشمیر کی تازہ صورتحال کے مطابق لوگوں میں اضطراب اور غیر یقینی کی کیفیت تو ہے ہی لیکن اب کشمیریوں کا غصہ بڑھتا جارہا ہےجو مودی حکومت کیلئے کسی آتش فشاں کی مانند ہوگا۔ دوسری جانب سپریم کورٹ میں سماعت پر شہلا رشید نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ آخر کا آرٹیکل 370 کے معاملے پر پہلا قدم رکھ ہی دیا گیا اگرچہ یہ طویل سفر ہوگا لیکن کم از کم ابتدائ تو ہوئی، کہ مودی سرکار کے عزائم اور مقبوضہ کشمیر میں مظالم کا پردہ چاک کیا جاسکے۔