قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور افغان طالبان کے نمائندوں کے درمیان تمام بڑے معاملات پراتفاق ہوگیا ہے اورکسی بھی وقت متحارب فریقوں کےدرمیان معاہدہ ہوسکتا ہے،امریکہ کےنمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد اور طالبان رہنما مذاکرات کے نویں دور میں مسلسل پانچویں روزگفت و شنید میں مصروف رہے،امریکی میڈیا کےمطابق تنازع کا باعث بننے والے تمام معاملات حل کرلیےگئےہیں،اس ضمن میں زلمے خلیل زاد کسی بھی وقت افغانستان جاکرتازہ ترین پیش رفت پرکابل حکومت اور دیگراسٹیک ہولڈرزکواعتماد میں لےگے
ذرائع کےمطابق مراد امریکہ اوراتحادی افواج کا افغانستان سے انخلا کا معاملہ، افغانستان کے موجودہ آئین کا مستقبل، طالبان کے آئندہ کے کسی سیٹ اپ میں کردار اورافغان صدارتی انتخابات وہ امور ہیں جو متنازع اور اہم ترین سمجھے جاتے ہیں جن پر اتفاق رائے ہوچکا ہے،اس کے علاوہ یہ بھی طے ہے کہ طالبان افغانستان میں امریکہ کو نشانہ بنانے والی فورسزجیسےالقاعدہ یا داعش کا ساتھ نہیں دیں گے، بلکہ انہیں قدم بھی جمانے نہیں دیا جائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہےکہ افغان امن معاہدے پردستخط کی تقریب کی تاریخ کا اعلان بہت جلد ہوگا اوراس حوالےسےتقریب دوحہ میں منعقد ہوگی،ذرائع کے مطابق متوقع طورپراس تقریب میں قطر کے امیر شرکت کریں گے،جب کہ افغانستان کےتمام ہمسایہ ملکوں کے وزرائے خارجہ کو مدعو کیا جائےگا۔
امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد اور طالبان کے 16 ارکان پر مشتمل وفد کے درمیان مذاکرات کا یہ نواں دور ہے جبکہ افغانستان میں 18 سالہ طویل جنگ کے خاتمےکے لیے امریکہ اور طالبان کے درمیان ٘مذاکرات کے آٹھ دور ہو چکے ہیں
اس سے قبل افغانستان کے ذرائع ابلاغ نے کہا تھا کہ بات چیت کےموجودہ دورکےدوران افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلا 15 سے 20 ماہ میں مکمل کرنے پر اتفاق ہوگیا ہے اوراس سمجھوتےپرطالبان کی مذاکراتی ٹیم کے ڈپٹی لیڈرملا برادردستخط کریں گے،تاہم آزاد ذرائع سے ابھی اس کی تصدیق نہیں ہوئی ہے،ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بات چیت کے بعد افغانستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان بھی مذاکرات ہوں گے۔
دوسری جانب ذرائع کےمطابق طالبان چاہتے ہیں کہ جو بھی معاہدہ ہو اس کے لیے چین، روس جیسی علاقائی طاقتیں اوراقوام متحدہ اور اسلامی ممالک کی تنظیم جیسے ادارے ضمانت دیں، دوسری جانب امریکہ کی خواہش تھی کہ طالبان افغانستان میں القاعدہ اور داعش کی مذمت کریں،مگرطالبان شوریٰ نےاپنےوفدکوکوئی مذمتی بیان دینےسےروک دیا تھا،ذرائع کا کہنا ہےکہ القاعدہ اب بھی طالبان کو اپنا حلیف سمجھتا ہےممکنہ طورپرآگےچل کرطالبان کے لیے مسئلہ آئے گا کہ کس طرح القاعدہ کو قائل کریں کہ وہ افغانستان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔
یہ حقیقت ہےکہ القاعدہ اب افغانستان میں پہلےکی طرح موجود نہیں جیسے ماضی میں ہوا کرتی تھی، اس کے باوجود طالبان شوریٰ نے اپنےوفد کو ہدایت کررکھی ہےکہ وہ ایک حد سے آگے نہیں جا سکتےاورالقاعدہ کی مذمت بھی نہ کی جائے۔ اب جبکہ معاہدہ حتمی مراحل میں داخل ہوچکا ہے یہ سوال بدستور موجود ہے کہ اس پر عملدرآمد یقینی بنانے کی ضمانت کون دے گا اور کیا افغانستان میں دہشت گرد حملوں کی مکمل روک تھام ہوسکے گی اور اگر دستخط ہونے کے بعد بھی کارروائیاں جاری رہیں تو معاہدے کی کیا حیثیت رہ جائے گی۔۔؟؟