پاکستان میں ریل کو غریب و متوسط طبقے کی سواری کہا جاتا ہے، امیر اس میں نہ بیٹھتے نہ اس میں سفرکرنے والے کواچھا سمجھتےہیں البتہ صرف وہ امراء اس میں مجبوری میں سفر کرتے ہیں جنھیں جہاز کےسفرسےڈاکٹر نے منع کیا ہویا وہ ہوائی سفر سےخوفزدہ ہوں، اصولی طورپردیکھا جائےتو پاکستان ریلوے کو ملکی ٹرانسپورٹ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے، یہ محکمہ اپنے اندر عروج و زوال اور پھر اچھےبُرےاستحکام کی تاریخ لیے ٹریک پر چلے جا رہا ہ ایک اندازے کے مطابق ریل کے ذریعے سالانہ کروڑوں افراد سفر کرتے ہیں اور مسافروں کے ساتھ ساتھ مال برداری کے لیے بھی اس محکمے کا بڑا عمل دخل ہے اور معامللات خسارے سے نکل کر منافع کی جانب چلے گئے ہیں۔
پاکستان ریلوے ملک کےاُن چند بڑے محکموں میں شامل ہے جس کے ملازمین کی تعداد سینکڑوں میں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہے اور 75 ہزار سے زائد ملازمین دن رات خدمات انجام دے کرریل کا پہیہ چلا رہے ہیں، اگر یہ کہا جائےکہ یہ محکمہ 75 ہزار سے زائد خاندانوں کی کفالت کر رہا ہے توغلط نہ ہوگا، اگرچہ اس میں ملازمین کی کمی پائی جاتی ہے لیکن جو ملازمین پہلے سے موجود ہیں ان کی کارکردگی پربھی بہت سے سوالات اٹھتےہیں اورشاید یہی لوگ ہیں جن کی کفالت تو پاکستان ریلوے کرتی ہے لیکن یہ لوگ ریلوے کی خجالت کا باعث بنتے ہیں۔
پاکستان میں شیخ رشید احمد کےوزیرریلوےکامنصب سنبھالنے کےبعد سے اب تک چلنے والی مسافر ٹرینوں کی مجموعی تعداد 38 کے قریب ہوگئی ہےکئی ٹرینیں اپنے کم اسٹاپس کے نام سے متعارف کرائی گئیں جیسے، سرسید ایکسپریس، گرین لائن، رحمان بابا وغیرہ لیکن شروع کےچند دن کےبعد ان کا حال بھی لوکل ٹرینوں جیسا ہی ہوگیا ہے،مسافر ٹرین کی اکانومی کلاس میں 88 مسافر ایک بوگی میں سفر کرسکتے ہیں جب کہ بزنس کلاس میں 54، لوور اے سی میں 74 اور سلیپر میں صرف 16 مسافر سفر کرتے ہیں، ان ٹرینوں میں مسافروں کی تعداد اتنی ہے کہ ہفتوں تک کی بکنگ نہیں ملتی لیکن حالت زار ایسی کہ الامان الحفیظ۔
ہو یہ رہا ہےکہ ہرکچھ ہفتوں بعد وزیرریلوے کی جانب سے ایک نئی ٹرین چلانے کا اعلان کردیا جاتا ہے لیکن کوئی یہ پوچھنے والا نہیں کہ جو ٹرینیں پہلے سے چل رہی ہیں ان کا حال کیا ہے اور جن سہولیات اور جن وعدوں کے نام پر نئی ٹرینیں چلائی گئی تھیں کیا وہ سہولیات ان میں اب تک فراہم بھی کی جارہی ہیں یا نہیں۔۔؟؟
صورتحال یہ ہے کہ اس وقت جتنی بھی ٹرینیں چلائی جارہی ہیں وہ کراچی سے پشاور تک مرکزی ٹریک پرڈبل ٹریک اورخانیوال سے راولپنڈی براستہ فیصل آباد کے متبادل روٹ پرسنگل ٹریک پرچل رہی ہیں،ساتھ ہی اگر کسی جگہ ٹرین کو کوئی معمولی حادثہ بھی پیش آجائے یا کوئی اورخرابی واقع ہوجائے توتمام ٹرینوں کا شیڈول بری طرح متاثرہوتا ہے،گذشتہ دنوں شدید بارشوں اور سمہ سٹہ اسٹیشن پرایک معمولی حادثےکےبعد سے گذشتہ 15 دنوں کےدوران تمام ٹرینیں 4 سے 9 گھنٹے تاخیرکا شکار ہورہی ہیں اور اس تاخیر پرنہ ہی مسافروں سے معذرت کی جاتی ہے نہ ہی انھیں اس کا متبادل کوئی راستہ بتایا جاتا ہے۔
کراچی کینٹ اور سٹی اسٹیشن ہو یا لاہورجنکشن ہرجگہ مسافر ٹرینوں کےدرہم برہم شیڈول پرغصے میں بھرے نظرآتے ہیں کئی مقامات پر تو بات گالم گلوچ اور ہاتھا پائی تک جاپہنچی لیکن ہماری نظر سے پاکستان ریلوے انتظامیہ کی جانب سے کوئی بھی ایک ایسا بیان نہیں گذرا جس میں مسافروں سے معذرت کی گئی ہو، یا ان مسائل کے حل کا کچھ کہا گیا ہو۔
مسافروں کا کہنا ہےکہ ٹرینوں کے اوقات میں تبدیلی یا تاخیر کی صورت میں پہلے سے انھیں آگاہ کرنےکا کوئی سلسلہ نہیں ہے اپنی ٹرین کیلئےمقررہ وقت پراسٹیشن پہنچنےوالےمسافرپریشان حال رہتے ہیں لیکن عملے کےافراد انھیں تفصیل سے بتاتےنہیں اورکئی گھنٹوں کے بعد اچانک اعلان ہوجاتا ہےکہ ٹرین اتنےگھنٹےلیٹ ہےاوراس میں بھی کوئی شرمندگی نہِیں ہوتی بلکہ بتانے والوں کا اندازایسا ہوتا ہےجیسے تاخیرکرکےانھوں نےمسافروں پر احسان عظیم کردیا ہے۔
پاکستان ریلوے نے رواں سال کےاوائل میں مسافروں کی سہولت کیلئے 64 ٹرینوں میں ٹریکرز نصب کیئےتھے جس کے بعد آن لائن ایپلی کیشن کے ذریعے لوگ گھر بیٹھے ٹرین کے مقام و رفتار کا تعین کرسکتے تھےلیکن ان ٹریکرز میں سےاکثر ٹریکرز تو کچھ ہفتوں میں ہی خراب ہوگئے،جس کےباعث ٹرینیں غلط لوکیشن اوراسپیڈ دینےلگی ہیں،اکثر ٹرینوں کی لوکیشن ٹریکنگ ایپ سے ہی غائب ہو گئیں اس کےساتھ ہی اگر کراچی سے پشاور یا راولپنڈی کے سفر کے دوران ٹرین کا انجن تبدیل کردیا جائے تو ایپلی کیشن سےٹرین ہی غائب ہوجاتی ہے،جبکہ اس ایپلی کیشن پرٹائم شیڈول کے ساتھ تاخیر کا شکار ٹرینوں کی اطلاع دینے کا بھی کوئی نظام نہیں جبکہ انتظامیہ نےعوام الناس کی سہولیات کے لیے بنائی گئی اس موبائل ٹریکنگ ایپ میں موجود خامیوں کو ٹھیک کرنے کی بجائے ایپ کو کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے،اور موبائل ٹریکنگ ایپ پہ خلاف قانون ڈیجیٹل اشتہارات لگانے شروع کردئیے گئے ہیں۔
ٹرینوں کی تاخیر اور سہولیات کا ذکر کیا جائے تو ایک ٹرین کی مثال دیئے دیتے ہیں جس کا افتتاح جولائی میں خود وزیر اعظم عمران خان صاحب نے کیا تھا، ٹرین کا نام سرسید ایکسپریس ہے جو کراچی سےراولپنڈی کےدرمیان چلائی جاتی ہے اس کے بارےمیں بتایا گیا کہ اس کا مجموعی سفر 21 گھنٹے30 منٹ اورکراچی سے راولپنڈی تک حیدرآباد، روہڑی، خانیوال، فیصل آباد،اور وزیرآباد کے 5 اسٹیشنوں پر اس کا اسٹاپ ہوگا۔
ٹرین کی اکانومی کلاس میں صاف ستھری نشستیں، ایل ای ڈی بلب، نئے پنکھے، ہر 6 سیٹوں کے کیبن پر پردے، اور موبائل فون چارجنگ پوائنٹ دیئے گئے، باتھ روم میں مسلم شاور، واش بیسن، آئینہ لگایا گیا، ڈائننگ کارایئرکنڈیشنڈ اورصاف ستھری لگائی گئی ہے، اکانومی کلاس کی سیٹ کا کرایہ راولپنڈی تک 1900 روپے اور برتھ کے ساتھ 2000 روپے رکھا گیا ہے، لیکن ٹرین میں دی گئی تمام سہولیات کا سلسلہ چند دن جاری رہنے کے بعد یہ بھی دیگر ٹرینوں جیسی ہی ہوگئی ، کراچی سے راولپنڈی جانے کیلئے سرسید ایکسپریس کے سفر کا آغاز رات 9 بجے ہوتا ہے جس کے بعد اس کے اگلے دن صبح مسافروں کو ریلوے کی جانب سے 2 سلائس ، ایک انڈا آملیٹ اور چائے دی جاتی ہے، صبح 11 بجکر 50 منٹ پر اس کا فیصل آباد پہنچنے کا ٹائم ہےجہاں سے کھانا گاڑی میں لوڈ کیا جاتا ہے اور مسافروں کو چکن چاول، شامی کباب اورایک جوس کا ڈبہ دیا جاتا ہے، شام کو ایک کپ چائے اور ایک کپ کیک بھی اسی ٹکٹ میں شامل ہے، جبکہ راولپنڈی پہنچنے کا وقت شام 6 بجکر 50 منٹ پر ہے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ سرسید ایکسپریس کا روازنہ 3 سے 5 گھنٹے تاخیر کا شکار ہونا معمول کی بات ہے، 5 اسٹیشنوں کی جگہ کم از کم 15 اسٹیشنوں اور کراسنگ کے نام پر 20 مقامات پر اسے روکا جاتا ہے، فیصل آباد پہنچنےکا وقت کبھی سہ پہر 3 بجے تو کبھی 5 بجے ہوگیا ہے اوراس وقت تک مسافروں کو کھانا نہیں دیا جاسکتا کہ کھانے کےپارسلز فیصل آباد سےہی لوڈ کیئے جاتے ہیں، ٹرین میں صفائی کا کوئی نظام نہیں، باتھ روم سے مسلم شاورز اور لوٹے غائب ہوکر ٹوٹے نل رہ گئے ہیں، واش بیسن کا برا حال، لیکویڈ صابن کیلئے لگایا گیا ڈبہ خالی رہتا ہے، اور ٹرین مینجر یا دیگر ذمہ داران ایئر کنڈیشنڈ ڈبوں میں بیٹھے رہتے ہیں انھیں اس سے غرض نہیں کہ مسافروں کے ساتھ کیا سلوک ہورہا یا ان کی حالت کیا ہے۔
سرسید ایکسپریس کوئی اکیلی یا انوکھی ٹرین نہیں جس کی حالت زار ایسی ہو تمام ٹرینوں کا معاملہ یہی ہے نتیجے میں ٹرینوں کی ایسی حالت ، نئی ٹرینوں میں سہولیات کے نام پر دھوکے اور شیڈول میں بے ترتیبی نے مسافروں کیلئےٹرین کا سفر دشوارسےدشواراورکرب ناک بنادیا ہے اور جس طرح دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ ٹرین کی چُھک چُھک اپنی سہولیات اور بہترین انتظام سے مسافروں کے کانوں میں رس گھولے گی عملے اور مسافروں میں تکرار کی چھک چھک میں تبدیل ہوچکی ہے کوئی دن اورکوئی اسٹیشن ایسا نہِیں جہاں تکرار دیکھنے میں نہ آئے اور اگر نہیں دیکھنے میں آرہا تو پاکستان ریلوے انتظامیہ کا کوئی ردعمل یا شکایات کے ازالے کے مطلوبہ اقدامات ہیں جن کا دُور دُور تک کچھ پتہ نہیں ایسے میں جدید ریلوے تو خواب و خیال سے بھی دور ہے بلکہ اب تو فرسودہ ٹرین بھی ہاتھ سے نکل رہی ہے جو جیسی بھی تھی کم ازکم دعووں اور وعدوں سے تو خالی تھی۔
شیخ رشید صاحب کوملکی سیاست کے ساتھ تھوڑا ٹائم اپنی وزارت کیلئے بھی نکالنا چاہیئے اورخود ٹرین میں سفر نہیں کرسکتے تو 10 سے 12 بندے ہی رکھ لیں جو ٹرینوں میں سفرکرکے خفیہ طور پر ہفتہ واراپنی رپورٹ پیش کرسکیں، ساتھ ہی حادثات سے بچاو کیلئے کوئی جدید نظام متعارف کرانا بھی وقت کی ضرورت بن گیا ہے ورنہ ٹرینوں کے حادثات اور ان کے شیڈول ایسے ہی درہم برہم رہیں گے۔ اور شیخ صاحب کیلئے مسافروں کے نادر و نایاب الفاظ استعمال ہوتے رہیں گے۔