ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما اور امریکی صدارتی امیدوار بننے کے خواہشمند امیدوار برنی سینڈرز نے ٹرمپ انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کی حمایت کی جائے جبکہ رکنِ کانگریس کا کہنا ہےکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والا آرٹیکل 370 ختم کرکے بھارت کی سیکیولر حیثیت کو شدید خطرات سے دوچار کردیا ہے۔
ہیوسٹن میں اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکا کے سالانہ کنوینشن سے خطاب میں برنی سینڈرز نے مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی اقدامات کی مذمت کرتے ہوئےکہا کہ مودی حکومت کے اقدامات ناقابل قبول ہیں،انہوں نے مزید کہا کہ سیکیورٹی کے نام پر کریک ڈاون کر کے کشمیریوں کے حقوق چھینے گئے ہیں اور کشمیریوں کو طبی سہولتوں تک رسائی بھی حاصل نہیں ہے،برنی سینڈرز نے مطالبہ کیا کہ مواصلاتی رابطوں کی معطلی فوری ختم کی جائے اور کشمیر میں نافذ کرفیو فوری طور پر ختم کیا جائے،ان کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت کو انسانی حقوق کے لیے بھرپور آواز اٹھانی چاہیے اور کشمیریوں کی خواہش کے مطابق اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت پُرامن حل پر زور دینا چاہیے۔
اس سے قبل امریکی رکنِ کانگریس کہہ چکے ہیں کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والا آرٹیکل 370 ختم کرکے بھارت کی سیکیولر حیثیت کو شدید خطرات سے دوچار کردیا ہے۔سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ڈیموکریٹ رکنِ کانگریس اینڈی لیون نے ایک مضمون شیئر کرتے ہوئےکہا کہ سال 2005 میں بش انتظامیہ نے گجرات میں 2002 میں ہونے والے مسلم کش فسادات نہ روکنے پرنریندرمودی کے امریکا داخلے پر پابندی عائد کردی تھی۔
اُدھر انسانی حقوق کی نگرانی کرنے والی تنظیم نے کشمیر کے حوالے سے جاری کی گئیں اپنے 2 رپورٹس میں بھارتی حکومت کو باور کروایا تھا کہ کشمیر میں اس کی ’ترجیح شہری آزادی کا تحفظ ہونا چاہیے،اسی طرح دوسری رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ وادی کشمیر میں ایک ماہ کے عرصے سے جاری محاصرے میں بنیادی آزادی کی خلاف ورزی، ضروری خدمات متاثر اور معیشت کو نقصان پہنچا ۔
اسی قسم کی ایک رپورٹ میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارتی حکومت پر زور دیا تھا کہ جموں کشمیر میں تمام سیاسی رہنماؤں کو فوری طور پر رہا اور جان بوجھ کر وادی میں اٹھنے والی آوازوں کو خاموش کروانے کا سلسلہ ختم کیا جائے،واشنگٹن میں قائم سینٹر برائے اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز (سی ایس آئی ایس) کا کہنا تھا کہ موودی اپنے آپ کو علاقائی طاقتور شخص کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں اور اس طاقتور شخصیت کے اردگرد ہندو قوم پرستوں کی حمایت بھی دکھانا چاہتے ہیں۔
واشنگٹن میں سفارت کاروں نے اس بات کی جانب بھی نشاندہی کی کہ جہاں پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پربھارتی اقدام کے خلاف احتجاج کیا جارہا ہے وہیں اس احتجاج کا مرکزمذہبی مراکز یا تنظیمیں نہیں ،ان کی رائے میں کشمیرکی حمایت میں نکالی جانے والی ریلیوں اور جلسوں سے پاکستان کی مذہبی جماعتیں غیر حاضر ہیں،غیر ملکی میڈیا کہنا تھا کہ ایک مغربی سفارت کار کا اس بارے میں کہنا تھا کہ اس احتجاج کے دورانِ ’نہ تو کوئی مذہبی بیان بازی ہوئی نہ جہاد کی کال دی گئی اور نہ ہی اسلحے کی نمائش کی گئی۔
دوسرے سفارتکاروں کا کہنا تھا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان انتہا پسندوں کو قابو میں رکھنے کے وعدے کی پاسداری کرتے ہوئے انہیں پڑوسی ممالک کے خلاف پرتشدد سرگرمیوں کے لیے اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے رہا،ایک اور سفارت کار کا کہنا تھا کہ نریندر مودی اپنی مذہبی عقیدت سے متاثر ہوتے ہوئے بھارت کو سیکیولر سے ہندو ریاست بناتے ہوئے نظر آتے ہیں۔سفارتکار کے مطابق بی جے پی حکومت نے پورے بھارت میں مسلمانوں کو عوامی سطح پر پاکستان کی مذمت کرکے اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے مجبور کیا اور ان کے بیان ریکارڈ کر کے سوشل میڈیا پر بھی چلائے گئے۔