پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے کی تصدیق کردی ہے تاہم معاہدہ امریکی صدر کی توثیق تک حتمی تصور نہیں کیا جائے گا،افغان خبر رساں ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں زلمے خلیل زاد نے کہا کہ امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے کے اصولوں پر اتفاق ہوگیا ہے طالبان اور امریکا کے درمیان 10 ماہ تک چلنے والے مذاکرات کے 9 دور ہوئے۔
زلمے خلیل زاد نے بتایا کہ ممکنہ معاہدے کے تحت امریکا افغانستان کے 5 فوجی اڈوں سے 135 روز کے اندر 5 ہزار فوجیوں کا انخلا کرے گا،امریکی نمائندہ کا کہنا تھا کہ معاہدے کے پہلے مرحلے میں صوبے کابل اور پروان میں تشدد میں کمی واقع ہوگی،خلیل زاد نے واضح کیا کہ اسلامی امارات کی جانب واپسی کا طالبان کی حکومت کیلئے جو لفظ استعمال کیا گیا اسے زبردستی قبول نہیں کیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ صدر ٹرمپ اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ طالبان اور حکام کے درمیان کہاں اور قسم کی ڈیل کی جائے گی تاہم یک طرفہ خیالات کی زبردستی توثیق کی کوشش کی گئی تو نتیجہ جنگ ہوگا۔
افغانستان میں اس وقت چودہ ہزار امریکی فوجی موجود ہیں جو امریکہ کی تاریخ کی سب سے طویل جنگ لڑ رہے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے بعد بھی آٹھ ہزار چھ سو امریکی فوجی افغانستان میں موجود رہیں گے۔
اطلاعات کے مطابق زلمے خلیل زاد یکم ستمبر کو ہی کابل پہنچے جہاں انھوں نے افغان صدر اشرف غنی سے پیر کی رات تک دو ملاقاتیں کیں۔ کابل میں افغان صدر کے ترجمان وحید صدیقی نے پیر کو ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ زلمے خلیل زاد نے افغان صدر کے ساتھ امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کا مسودہ شیئر کیا ہے۔ ترجمان کے مطابق افغان صدر مسودے پر صلاح مشورے کے بعد امریکی حکام کو اپنے موقف سے آگاہ کریں گے۔
کابل میں ذرائع کے مطابق زلمے خلیل زاد نے افغانستان کے چیف ایگزیکٹیو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ سے بھی ملاقات کی اور افغان حکام سے ملاقاتوں کے بعد زلمے خلیل زاد اسلام آباد پہنچیں گے جہاں وہ پاکستانی حکام کو بھی امن معاہدے کے مسودے سے متعلق آگاہ کریں گے،زلمے خلیل زاد کے مطابق امریکی صدر کی تائید کے بعد آئندہ چند دنوں میں بین الافغان مذاکرات کے لیے جگہ اور تاریخ کا اعلان کیا جائے گا۔ ان کے مطابق ان علاقوں میں جہاں سے امریکی افواج نکلیں گی وہاں جنگ میں کمی ہوگی،تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد جنگ بندی نہیں ہے کیونکہ جنگ بندی پر بحث بین الافغان مذاکرات میں ہوگی۔
امریکہ کے خصوصی نمائندے کے مطابق امریکہ کی طالبان کے ساتھ مذاکرات میں ایک ’ریڈ لائن‘ بھی ہے اور وہ یہ کہ امریکہ کبھی نہیں چاہے گا کہ افغانستان میں ’اسلامی امارت‘ کے نام پر کوئی نظام بن جائے اور کسی کو بھی یہ اجازت نہیں ہوگی کہ وہ زبردستی کوئی ایسا قدم اٹھائیں، ایک جانب معاہدہ حتمی ہوچکا ہے تو دوسری جانب طالبان کی جانب سے مختلف شہروں میں حملوں میں بھی شدت آچکی ہے ایسی سورت میں مبصرین اس سوال پر پریشان ہیں کہ کیا معاہدہ صرف امریکی فوجوں کے انخلاء تک محدود ہے یا اس کا کوئی فائدہ افغانستان میں مکمل امن کے قیام کو بھی ہوگا۔۔۔؟؟