پاکستان کرکٹ بورڈ کے حکام کے مطابق مصباح الحق اور وقار یونس کو تین سال کے لیے مقررکیا گیا ہےجب کہ مصباح الحق تین سال تک سلیکشن کمیٹی کے سربراہ بھی ہوں گے،پی سی بی کی 5 رکنی سلیکشن کمیٹی نے چند روز قبل قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ اور بولنگ کوچ کے لیے انٹرویوز کیے تھے،قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ کے لیے شامل 5 رکنی پینل میں وسیم خان، بازید خان، اسد علی خان، زاکر خان اور انتخاب عالم شامل تھے۔
پی سی بی کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ 5 رکنی پینل نے ہیڈ کوچ کے لیے مصباح الحق اور بولنگ کوچ کے لیے وقار یونس کا نام تجویز کیا اور چیئرمین پی سی بی احسان مانی نے دونوں کوچز کے ناموں کی منظوری دیدی ہے۔
مصباح الحق اور وقار یونس کی قومی کرکٹ ٹیم کے ہمراہ پہلی اسائنمنٹ سری لنکا کے خلاف سیریز ہو گی،پاکستان اور سری لنکا کے درمیان 3 ایک روزہ اور 3 ٹی ٹوئنٹی میچز کی سیریز 27 ستمبر سے شروع ہو گی،چیف ایگزیکٹو پی سی بی وسیم خان نے کہا کہ کوچنگ کے لیے درخواست جمع کرانے والے تمام امیدواروں کے شکر گزار ہیں،وسیم خان نے کہا کہ امید ہے قومی کرکٹ کو مصباح الحق کی قائدانہ صلاحیتوں کا فائدہ ہو گا۔
دوسری جانب قومی ٹیم کے نومنتخب ہیڈ کوچ مصباح الحق نے کہا کہ قومی کرکٹ کی کوچنگ کرنا میرے لیےاعزاز کی بات ہے، پاکستان کرکٹ ٹیم کی کوچنگ بہت بڑی ذمہ داری ہے اور اس نئی ذمہ داری کو نبھانے کے لیے مکمل تیار ہوں،مصباح الحق پاکستان کرکٹ بورڈ کی کرکٹ کمیٹی کے رکن تھے اور انہوں نے کمیٹی سے مستعفی ہو کر قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ کے لیے درخواست جمع کرائی تھی جب کہ وقار یونس ماضی میں دو بار قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ اور دو مرتبہ بولنگ کوچ بھی رہ چکے ہیں۔
مصباح الحق 56 ٹیسٹ میچز میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی کپتانی کے فرائض انجام دے چکے ہیں جس میں سے 26 میں قومی ٹیم کامیاب رہی اور 19 میں گرین کیپس کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا،مصباح الحق کی قیادت میں قومی ٹیم کو ٹیسٹ رینکنگ میں نمبر ون پوزیشن حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
کرکٹ نقادوں نے مصباح الحق کی بطور چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ تعیناتی پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ اس فیصلے کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اب ایک ہی شخس تیم کی مکمل کارکردگی کا ذمہ دار ہوگا اس سے قبل ہیڈ کوچ کو شکایت ہوتی تھی کہ انھیں اچھے کھلاڑی نہیں دیئے گئے تو چیف سلیکٹر کہتے تھے کہ ہیڈ کوچ کھلاڑیوں کو سنبھال نہیں سکے، نقادوں کے مطابق دو اہم ذمہ داریاں ملنے کے بعد مصباح الحق کو اپنے دفاعی انداز میں تبدیلی کرتے ہوئے جارحانہ انداز اپنانا ہوگا کیونکہ اب روایتی کرکٹ بہت تبدیل ہوچکی ہے۔